مشہور کہا وت ہے کہ تا ریخ خو د کو دہراتی ہے ۔ کر کٹ کی تا ریخ بھی اس مبرا ثا بت نہیں ہوسکی۔حال ہیںبھارت آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا، کوہلی الیون کے سارے ’’اگرمگر‘‘ ختم ہوگئے۔ پیر کو نمیبیا سے میچ رسمی کارروائی بن گیا۔ نیوزی لینڈ نے اتوار کو افغانستان کے خلاف 8 وکٹوں سے کامیابی سمیٹ کر ویرات کوہلی کا قصہ تمام کردیا۔ ابتدائی میچ میں ایونٹ کا میزبان بھارت بڑے بلند و بانگ دعووں کے ساتھ یو اے ای آیا تھا لیکن ابتدائی میچ میں پاکستان سے شکست نے اس کے ارمان ٹھنڈے کردیئے۔ اس نے افغانستان اور سکاٹ لینڈ کے خلاف آسان فتوحات سمیٹ کر اپنے شائقین کو ’’لالی پاپ‘‘ دیا لیکن کیویز نے افغان ٹیم کو آئوٹ کلاس کرکے ان کی رہی سہی امیدیں ختم کردیں۔ پاکستان کے بعد نیوزی لینڈ سے گروپ کے دوسرے باہمی مقابلے میں بھی بھارتی ٹیم کو 8 وکٹوں سے بدترین شکست کا سامنا رہا تھا۔ گزشتہ 9 برس میں بھارتی ٹیم آئی سی سی ایونٹ کے سیمی فائنل تک پہنچنے میں پہلی بار ناکام رہی۔ اس سے قبل ایسا سری لنکا میں منعقدہ 2012ء کے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں ایسا ہوا تھا۔ کوہلی الیون گروپ کے چار میچوں میں سے 2 میں فتح یاب رہی جبکہ 2 میں اسے ناکامی کا سامنا رہا۔ دریں اثنا پاکستان نے آخری گروپ میچ میں سکاٹ لینڈ کو 72 رنگ سے شکست دے کر گروپ میں سرفہرست درجہ بندی حاصل کرلی۔ گرین شرٹس کا اب سیمی فائنل میں ٹاکرا 11 نومبر کو آسٹریلیا سے ہوگا۔ قومی ٹیم نے گروپ کے پانچوں میچز میں کامیابی پائی۔ اس نے سکاٹ لینڈ کے خلاف پہلے کھیل کر 4 وکٹوں پر 189 رنز بنائے۔ بابر اعظم 66، رضوان نے 15 رنز بنائے۔ حفیظ 31 رنز بنا کر میدان بدر ہوئے۔ اختتامی اوورز میں شعیب ملک نے 18 گیندوں پر 54 رنز کی طوفانی اننگز کھیلی۔ سکاٹش ٹیم 6 وکٹوں پر 117 رنز بناسکی۔ رچی بیرنگٹن 54 ناٹ آئوٹ بنا کر نمایاں رہے۔ شاداب خان نے 2 وکٹیں لیں۔ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجا نے کہا ہے کہ پاکستان ٹیم نے ایک بار پھر آل رائونڈر کارکردگی دکھائی ہے۔ قومی ٹیم کی کامیابی پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ میں 5 میں سے 5 مقابلے جیتنا ایک شاندار کوشش ہے۔ رمیز راجا نے مزید کہا کہ فائنل اسپرٹ کے لیے قومی کرکٹر اسی طرح آگے بڑھیں۔ واضح رہے کہ پاکستان ٹیم سپر 12 کے آخری میچ میں سکاٹ لینڈ کو بآسانی 72 رنز سے شکست دے کر ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی اب تک کی ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے۔آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونے پر سابق بھارتی کپتان کپل دیو نے بھارتی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کپل دیو نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ جب کھلاڑی ملک کے لیے کھیلنے پر انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) کو ترجیح دیتے ہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں، کھلاڑیوں کو اپنی قوم کے لیے کھیلنے پر فخر کرنا چاہیے۔ کپل دیو نے کہا کہ میں ان کے مالی حالات نہیں جانتا اس لیے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ سب سے پہلے ملک کی ٹیم اور پھر فرنچائز ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فرنچائز کے لیے کرکٹ نہ کھیلو لیکن ذمہ داری اب بی سی سی آئی پر ہے کہ وہ اپنی کرکٹ کو بہتر انداز میں پلان کرے۔ اس ٹورنامنٹ میں ہم نے جو غلطیاں کی ہیں انہیں نہ دہرانا ہمارے لیے سب سے بڑا سبق ہے۔سابق بھارتی کرکٹر نے کہا کہ یہ مستقبل کودیکھنے کا وقت ہے، آپ کو فوراً منصوبہ بندی شروع کردینی چاہیے۔ کپل دیو نے مزید کہا کہ مجھے صرف یہ لگتا ہے کہ آئی پی ایل اور ورلڈ کپ کے درمیان کچھ فرق ہونا چاہیے تھا۔ خیال رہے کہ نیوزی لینڈ نے گروپ میچ میں افغانستان کو شکست
دے کر اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر کردیا۔ اپنی جیت کے ساتھ نیوزی لینڈ سیمی فائنل میں پہنچ گیا جبکہ بھارت سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کو بھی ٹیم سے نکالے جانے کا امکان ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں سینئر کھلاڑیوں کو آرام دینے کا امکان ہے۔ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز 17 نومبر سے
شروع ہوگی جس میں ویرات کوہلی، جسپریت بمراہ، راہول، محمد شامی، ایشون، پنٹ اور جڈیجا کو آرام دینے کا امکان ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیم کی قیادت روہت شرما کریں گے کیونکہ ویرات کوہلی ٹی ٹوئنٹی کی قیادت سے پہلے ہی الگ ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ویرات کوہلی کو ون ڈے کی کپتانی سے بھی ہٹادیا جائے گا جبکہ ہوم سیریز کے لیے بھارتی ٹیم کا اعلان ایک دو روز میں ہوگا۔دنیائے کرکٹ آج کل ٹی 20 ورلڈ کپ کے سحر میں مبتلا ہے، اسے کرکٹ کی تاریخ کے ان انقلابات، تنازعات، کرکٹ بورڈز کے جھگڑوں سے ہونے والی عالمی کرکٹ تبدیلیوں کا کچھ پتا نہیں کہ انتظامی سطح پر کرکٹ نے کتنے کاروباری، تجارتی اور تکنیکی اقدامات کرتے ہوئے کرکٹ کے فارمیٹ کیسے بدلے، گلوبلائزیشن نے کرکٹرز کے ذہن، ان کے کھیلنے کے انداز کیسے بدلے۔اب کرکٹ میں نظر آچکا ہے۔ روایات بدلی ہیں، کرکٹ کی پوری سائیکی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ کرکٹ نے انگلینڈ میں جنم لیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار دیکھے، دنیا کے بہترین فاسٹ بولرز نے پھر ایشنز سیریز کے تجربات سے لطف اُٹھایا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ سیریز کرکٹ ہسٹری کی مقبول ترین کرکٹ سیریز بن گئی۔ دنیا کے نامور بیٹسمین سامنے آئے، بریڈ مین جیسا بلے باز نام پیدا کیا۔ للی، جے تھامسن، پھر ویسٹ انڈیز نے ویزلے ہال، میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ، کورٹنی والش، آئن بشپ، کولن کرافٹ، کرٹلی امبروز، جے گارنر، اینڈی رابرٹس نے فاسٹ بائولنگ میں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے۔ دنیا کی مختلف ٹیموں نے رفتہ رفتہ کرکٹ کے نقشے پر اپنے رنگ جمائے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، زمبابوے، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا کے مقابلے دنیا میں شائقین کی تعداد میں اضافہ کرنے لگے۔ آج افغانستان، نمیبیا، اسکاٹ لینڈ ٹی20 ورلڈ کپ کے میچز دنیا نے دیکھے، نئی ٹیموں نے شائقین کی دلچسپی میں اضافہ کیا ہے۔ لوگ ٹیسٹ میچز کو اب تقریباً بھلا چکے ہیں۔ ون ڈے بھی ان کی ترجیحات میں ان کی کوئی مجبوری نہیں۔ وہ 20 ٹوئنٹی کے پیدا کردہ نشے سے سرشار ہیں۔ ماہرین کرکٹ کا کہنا ہے کہ کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل انسان اور کھیل کی انتظامیہ تجربوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑتی۔ کرکٹ میں سیکڑوں تجربات ہوئے لیکن سب سے بڑا اور نتیجہ خیز انقلاب یا بغاوت کیری پیکر سیریز نے برپا کی۔ 1977ء سے آسٹریلیا کے ٹائیکون کیری پیکر نے ورلڈ کرکٹ سیریز کا اعلان کیا تو دنیا میں کرکٹرز نے اسے انقلاب سے تعبیر کیا۔ کرکٹ ٹیموں کے سٹارز نے بغاوت کا پرچم بلند کر دیا، پاکستان بھی ان میں شامل تھا۔ یہ گلوبلائزیشن کے ابتدائی دور کی بہت بڑی توانا سپورٹس بغاوت تھی۔ مشہور کرکٹر چیپل برادران سمیت ٹونی گریگ اور بہت سے سرکردہ کرکٹرز اس قافلے میں کیری پیکر سے آ ملے، کارواں بڑھتا گیا۔ ٹیموں کے ملبوسات، اصول، اوقات، گیند کی رنگت، شیڈول فکسچرز اور کرکٹ کے ڈھانچے کو انقلابی خطوط پر ڈھالا، کیری پیکر نے پاکستان کے لیے لنٹن ٹیلر کو خاص طور پر متعین کیا تھا۔ عبدالرحمن بخاطر شارجہ میں متحرک تھے، عمران خان بھی اس تحریک میں شامل تھے۔ کیری پیکر سیریز اپنی نوعیت کی دلچسپ کرکٹ مہم تھی۔ کھلاڑیوں کو کھیل کے نئے تجربات سے سابقہ پڑا۔ مقابلے ایک نئے ماحول اور مختلف دلچسپیوں کے ساتھ کھیلے گئے۔ گیمز سے بین الاقوامیت بڑھی، کھیلوں میں دوستی اور سفیری کا شوق پیدا ہوا۔ نئے ہیروز جنم لینے لگے۔ ویسٹ انڈیز کھلاڑیوں سے ایشین شائقین کی دوستیاں بڑھ گئیں۔ لیاری کے فٹ بالروں نے ویسٹ انڈیز کے تین کھلاڑیوں کو لیاری کا دورہ کرایا۔ بعض ملبوسات فروخت کرنے والی کمپنیوں نے ویسٹ انڈیز کو قمیض شلواریں پہنائیں، وہ بہت خوش ہوئے۔ یہ وہی محبت اور میل ملاپ کی گرمی ہے جو آج بھی ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کی رگوں میں دوڑتی ہے۔ سیاہ فام کہیں کے ہوں انہیں اہل پاکستان اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں۔ ڈیرن سیمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.