میری محمد بلال سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اس برس کے آغاز میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سامنے نائب تحصیلدار سمیت دیگر پوسٹوں کے پیپرز لیک ہونے اورسرکاری نوکریوں کی مبینہ فروخت کے خلاف نوجوان امیدواروں کے احتجاج کی قیادت کر رہا تھا۔ میں صحافت کا مقصد ہی یہ سمجھتا ہوں کہ اپنے پسے ہوئے اور مظلوم طبقات کی شکایات کو سامنے لاوں، اعلیٰ حکام کے سامنے ان کا مقدمہ رکھوں اور درخواست کروں ان مسائل کو حل کیا جائے۔ سچ پوچھیے تو یہ جمہوری حکومت کی ایک خدمت ہوتی ہے جس میں اسے اپنے ہی عوام کے سامنے فیس سیونگ فراہم کی جاتی ہے۔ عوام اور حکومت کے تعلقات بہتر بنائے جاتے ہیں، غلط فہمیاں دور کی جاتی ہیں، شکایات کا ازالہ ہونے سے نفرتیں ختم ہوتی ہیں، محبتیں بڑھتی ہیں ۔ یوں ہوا کہ محمد بلال اوراس کے ساتھیوں نے تو اپنا مقدمہ پورے دلائل کے ساتھ پیش کر دیا مگر پنجاب پبلک سروس کمیشن کے عہدیدارو ں نے آمریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب تک دینا گوارا نہیں کیا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے خوفزدہ ترجمانوں کی ٹیم کیوں رکھی ہوئی ہے جسے غلط فہمیوں کے ازالے تک کا اختیار نہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ احتجاج کرنے والے کبھی کبھار غم اور غصے میں کچھ بڑھا چڑھا کر بھی بیان کر دیتے ہیں مگر خبر اور پروگرام متوازن ہی اس وقت ہوتے ہیں جب دوسری طرف سے موقف دیا جائے لیکن اگر موقف دینے کی بجائے دھمکیاں دی جائیں تو اس کا مطلب کیا لیا جائے، وہ اہل علم اور اہل عقل خود سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی پی ایس سی میں کرپشن کی نشاندہی کرنے پر محمد بلال کو ایف آئی اے کی طرف سے گرفتار کیا جا چکا ہے اور میں حیران ہوں کہ کیا ایف آئی اے بھی اس طرح گرفتاریاں کرتا ہے۔ یہ سوال وزیراعظم عمران خان سے پوچھا جانا چاہیئے کہ کیا ان کے نئے پاکستان میں کرپشن جرم نہیں، کرپشن کی نشاندہی جرم ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے پیپرز بیچے گئے ۔ اینٹی کرپشن نے باقاعدہ پر چھاپے مارے، ملزمان گرفتار ہوئے مگر اس کے بعد کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو بھی ملتان میں اس کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ یقین کریں اس گرفتاری کے بعد میں پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے مکمل مایوس ہو گیا ہوں کہ یہاں ہمت، جرات اور بہادری کے ساتھ ایک شفاف نظام اور انصاف کے لئے لڑنے والے کو عبرت کی مثال بنا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ اطلاع عام ہے کہ لیکچرر کی نوکری پندرہ سے پچیس لاکھ اور تحصیلدار کی نوکری ایک کروڑ روپے میں بیچی جا رہی تھی ( اور بیچی جا رہی ہے) اور یہ اتنی بڑی رقم ہے جس کے لئے کوئی مافیا کچھ بھی کر سکتا ہے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پرانے پاکستان میں نہ امتحانات میں نقل باقی رہ گئی تھی اور نہ ہی پبلک سروس کمیشن میں نوکریوں کی ایسی نیلامی ممکن تھی۔ حیرت انگیز طور پر حکومت اس پورے معاملے پر خاموش ہے جیسے حصے دار ہو۔
میں اپنی درخواست دہراتاہوں کہ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کی بہتری کے لئے اگر حکومت، کمیشن اور ایف آئی اے کے پاس اپنے اقدامات کے جواز موجود ہیں تو وہ سامنے لائے۔ محمد بلال کی گرفتاری سے بیس اہم ترین سوال پیدا ہوچکے ہیں۔ پہلا سوال، کیا یہ درست ہے کہ پی پی ایس سی کے پیپرز لیک ہوئے ( اگر یہ درست ہے تو پھر محمد بلال بھی اپنے موقف میں درست ہے)۔ دوسرا سوال، کیا یہ درست ہے کہ اس کی نشاندہی محمد بلال اور اس کے بہادر ساتھیوں نے کی ( اگر یہ درست ہے تو پھر گرفتاری انتقامی کارروائی ہے)۔ تیسرا سوال، کیا یہ درست ہے کہ اینٹی کرپشن نے مجرم رنگے ہاتھوں پکڑے ( اگر یہ درست ہے تو یہ کمیشن میں کرپشن کے خلاف ثبوت ہے)۔ چوتھا سوال، کیا یہ درست ہے کہ وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم نے اس پر انکوائری کی۔ پانچواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ وزیراعلیٰ کے وعدے کے باوجود پبلک نہیں کی گئی ( جس نے منطقی طور پر ذمے داروں کے حوصلے بلند کئے)۔ چھٹا سوال، کیا یہ درست ہے کہ گرفتار ملزمان کو پی پی ایس سی نے نائب تحصیلدار کے پیپر کی رولنمبر سلپس جاری کر دیں ( اور اگر احتجاج نہ ہوتا تو وہ جیل سے پیپر دینے بھی آجاتے)۔ساتواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ پی پی ایس سی نے بطور ادارہ کسی انکوائری اور سزا کا از خود اعلان تک نہیں کیا ( جس سے ملی بھگت کا تاثر ملتا ہے)۔آٹھواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ احتجاج کی دھمکی پر ملزمان کی رولنمبر سلپس کینسل ہوئیں ۔ نواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ بڑا سکینڈل بننے کے باوجود اے ایس آئی کا پیپر لیک ہوا ( یعنی بیڈ پریکٹس جاری رہی)۔ دسواں سوال، کیا یہ پروپیگنڈہ اعداد وشمار سے درست ہے کہ سیکرٹری صاحب کے ضلع اور ڈویژن سے پی پی ایس سی میں پاس ہونے والوں کی تعداد خوفناک حد تک زیادہ ہے ( کہ وہاں ٹیلنٹ کی فیکٹری نہیں لگ گئی)۔ گیارہواں سوال، اس کی کیا وجوہات ہیں کہ پی پی ایس سی نے میرے پروگرام سمیت کسی جگہ بھی بار بار درخواست کے باوجود اپنا موقف اور اپنی صفائی نہیں دی ( کہ پی آراو ز اسی کام کے لئے ہوتے ہیں)۔بارہواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ پی پی ایس سی کا انٹرویوز میں نمبر دینے کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ( جو سلیکشن کو مشکوک بناتا ہے)۔ تیرہواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ بغیر وجہ بتائے اکیڈیمک پرسنٹیج کو بدلا گیا اور بی اے کے نمبر چالیس میں سے اٹھائیس کر دئیے گئے جس نے پورا میرٹ بدل دیا ۔چودہواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ محمد بلال خود پی پی ایس سی کا ٹاپر ہے اور ایک سٹیک ہولڈر کے سوالوں کے جواب بھی نہیں دئیے گئے۔ پندرہواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے پی ٹی آئی کے منشور اور عمران خان کے اعلانات کے برعکس پرانے پاکستان کے مقابلے میں نئے پاکستان میں پچاس فیصد سے بھی کم ملازمتیں دیں جبکہ اپلائی کرنے والے دوگنا سے بھی بڑھ گئے ، کم ملازمتوں کی وجہ سے نوجوانوں میں بے چینی پھیلی اور حکومت وعدے کی تکمیل میں ناکام ہوئی۔ سولہوا ں سوال، کیا یہ درست ہے کہ پی پی ایس سی کی نااہلی کی وجہ سے لاکھوں اہل اور قابل پنجابی نوجوان اوور ایج ہوچکے ہیں اور ان کے لئے عمر میں رعائیت پر کوئی خصوصی اعلان نہیں ہوا۔ سترہواں سوال، اس پروپیگنڈے کا کیا جواب ہے کہ مارکیٹ میں لیکچرر کی نوکری پندرہ لاکھ، اینٹی کرپشن اور نائب تحصیلدار کی نوکری کا ریٹ ایک کروڑ روپے ہے۔ اٹھارہواں سوال، کیا یہ درست ہے کہ ایف آئی اے نے نوجوان محمد بلال کے جائز سوالوں کے جواب لینے کی بجائے اسے ہی اٹھا لیا تاکہ آئندہ کوئی کرپشن کی نشاندہی تک نہ کر سکے۔ انیسواں سوال، کیا یہ گرفتاری کرپشن کی نشاندہی کرنے کی بجائے خاموش رہنے کا پیغام ہے کہ جس کے پاس بھاری مال ہے وہ رقم لگائے اور نوکری خریدلے، جو بولے گا وہ مارا جائے گا۔ بیسواں سوال، کیا پنجاب پبلک سروس کمیشن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں حکومت سے عوام تک کسی کو جوابدہ ہے؟
میری وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے درخواست ہے کہ یہ پنجاب کے ان ایک کروڑ سے زیادہ گریجوایٹس کے سوال ہیں جو میرٹ پر شفافیت کے ساتھ سرکاری نوکریوں کی امید رکھتے ہیں۔ اگر ہم سرکاری نوکریاں ہی کرپشن کی بنیاد پر دیں گے تو ملکی نظام سے کرپشن کا خاتمہ کیسے کر سکیں گے۔ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کی بحالی چاہتا ہوں اور اگر کسی کے پاس ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے محمد بلال کی گرفتاری کا کوئی جواز ہے تو وہ ضرور دے۔ میں اسے اپنے پروگرام اور کالم میں ضرور پیش کروں گا ورنہ محمد بلال کو اس کی جرات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رہا کیا جائے۔
تبصرے بند ہیں.