ریاست مدینہ میں ریاستی دہشت گردی

184

ساہیوال کے علاقہ قادر آباد میں ریاستی ادار ے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) جن کو دہشت گردی کے ناسور کوختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا کی جانب سے چار بے گناہ افراد کا قتل سوالیہ نشان بن گیا ہے جنوری کی 19 تاریخ کو چونگی امر سدھو کا رہائشی خاندان اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے لاہور سے بورے والا تین کاروں میں سوار بورے والا کی جانب گامزن تھا جو شائد اس بات سے بے پرواہ تھے کہ ان کی شادی میں جانے کی خوشی راستے میں ہی ماتم میں بدل جائے گی ذرائع کے مطابق ایک کار بورے والا پہنچ چکی تھی اور دوسری کار کافی پیچھے تھی جبکہ ایک کار جس میں بد قسمت خاندان سوار تھے جن میں دو مرد، ایک خاتون اور اُن کے چار بچے شامل تھے بچوں میں تین بچیاں اور ایک بچہ تھا جو کہ عرصہ تیس سال سے لاہور کے علاقہ چونگی امر سدھو میں رہائش پذیر تھے ریاستی دہشت گردوں (سی ٹی ڈی) کا کارندوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ معصوم بچوں کے سامنے اُن کے نہتے والدین کو 13 سالہ بچی اریبہ کے ساتھ قتل کر کے ابدی نیند سلا دیا اور اُن نہتے خاندان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے کچھ یوں رپورٹ تیار کی ملاحظہ کریں ’’ رپورٹ کے مطابق ساہیوال سی ٹی ڈی ٹیم نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر آج ساہیوال میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بر آمد کر لیا گیا۔

قارئین کرام آپ نے درج بالا پولیس کی جانب سے جاری کردہ من گھڑت رپورٹ ملاحظہ کی اس رپورٹ کو من گھڑت اس لئے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پولیس رپورٹ میں کئی سوالوں نے جنم لیا ہے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کو اتنی مصدقہ رپورٹ تھی تو انہوں نے ان دہشت گردوں کو ان کے گھروں سے کیوں نہیں پکڑا؟ کیوں کہ یہ لوگ عرصہ تیس سال سے مسلسل ایک ہی جگہ پر رہ رہے تھے اور ذرائع کے مطابق وہ روزمرہ زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر جنرل سٹور چلاتے تھے اور کہیں پر بھی روپوش نہیں تھے اور اہل علاقہ کے مطابق وہ نہائت شریف النفس انسان تھے دوسرا سوال یہ کہ پولیس رپورٹ میں ہلاک ہونے والے شخص خلیل کا نام دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہے تو پھر خلیل کو دہشت گرد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ مرنے والی خواتین میں ایک 13 سالہ معصوم بچی بھی شامل تھی بھلا ایک 13 سالہ بچی جو کہ شائد دہشت گرد جیسے نام سے بھی نا بلد ہو وہ دہشت گرد کیسے ہو سکتی ہے؟ چوتھا سوال پولیس کے مطابق کار میں بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا ہے تو پھر وہ اسلحہ وقوعہ کے وقت کہاں غائب ہو گیا؟ پانچواں سوال پولیس رپورٹ کے مطابق کار میں سے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی جبکہ موصول شدہ تصاویر کے مطابق اگر کار سے فائرنگ کی گئی ہوتی تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے افراد کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتا جبکہ عینی شاہدین کے بیانات اور شواہد سے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی اور نا ہی پولیس وین پر کوئی گولیوں کے نشانات نظر آئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس اس کارروائی کو جان بوجھ کر دہشت گردی کا رنگ دے رہی ہے۔

چھٹا سوال پولیس کے مطابق کار سے مغوی بچوں کو بازیاب کرایا گیا جبکہ حقائق کے مطابق بازیاب ہونے والے بچے مرنے والوں کے اپنے بچے تھے، ساتواں اورسب سے اہم سوال کہ تین دہشت گرد جو کہ ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار تھے اور لاہور سے ساہیوال تک کا تقریباََ 200 کلو میٹر کا سفر ٹرپل سواری پر نیشنل ہائی وے پر کیسے کر سکتے ہیں؟ جبکہ قانون کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر دو افراد سوار ہو سکتے ہیں اور دونوں سواروں کے لئے ہیلمٹ پہننا بھی لازمی ہے اور سب سے بڑھ کر پولیس کارروائی کے دوران تین موبائل وین نے حصہ لیا اور وہ تین دہشت گرد ایک موٹر سائیکل پر سوار جن کو پولیس کی جانب سے ٹارگٹ کرنا نہائت آسان تھا وہ باآسانی پولیس والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار کیسے ہو گئے؟ ان سات سوالوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سوال ہیں جو کہ پولیس پارٹی کی جانب سے کئے گئے جعلی مقابلے پر عوام کی جانب سے اٹھتے ہیں اور چیخ چیخ کر ارباب اختیار سے انصاف کی اپیل کرتے ہیں کہ خدارا مدینے کی ریاست میں جن ریاستی دہشت گردوں نے بے گناہ افراد کا قتل کیا ہے اُن کو بھی انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار رکھتے ہوئے کڑی سے کڑی سزا دی جائے تا کہ انصاف کا بول بالا ہو اور میری وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارسے درخواست ہے کہ تمام کاموں کو ایک طرف رکھتے ہوئے فوری طورپر لواحقین کے پاس پہنچیں اور اُن کی داد رسی کرنے کے ساتھ ساتھ انصاف کی یقین دہانی کروائیں اور میرٹ کی بنیاد پر تفتیش کے عمل کو مکمل کر کے حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں۔

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)

محمد عرفان چودھری

تبصرے بند ہیں.