دینی مدارس کے طلبا کے سروں پر ہاتھ رکھیں
وفاق المدارس سے ملحق تمام مدارس میں درس نظامی کا سال بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ ۶ اپریل کو وفاق المدارس العربیہ کے امتحانات شروع ہوئے اور ۱۱ اپریل کو ختم ہوئے۔ وفاق المدارس العربیہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کہ شاید دنیا میں یہ پہلا بورڈ ہے جس سے ملحق تمام مدارس و درس گاہوں میں ایک ہی روز امتحانات کا اغاز ہوتا ہے اور ایک ہی روز اختتام ہوتا ہے۔ اور پھر نتائج کا مرحلہ بھی اسی طرح طہ ہوتا ہیکہ ایک ہی دن تمام درجات کے نتائج آجاتے ہیں۔
جب مدارس میں سال کا اختتام ہوتا ہے کہ تو کچھ مدارس میں اختتامی مجالس بھی منعقد کی جاتیں ہیں، جن میں بزرگوں کو بیانات کے لئے دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ سال کے آخر میں طلباء و علماء کو کچھ وعظ و نصیحت کریں تاکہ پورے سال وہ علم جس کو حاصل کیا اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے۔ ان مدارس میں جس فکر کے مذاکرات ہوتے ہیں شاید ہمارا عالمی میڈیا اس کی ایک فیصد بھی کوریج نہیں کر پاتا، یہ بات تو میڈیا اور اس کے کارندے ہی بہتر جانتے ہوں گے کہ ایسی کوتاہی کے پیچھے سر کردہ عناصر کون ہیں، اور ان کے مقاصد کیا ہیں اور اگر یہ لوگ خود اپنے مشن اور مقاصد کو لوگوں سے اگاہ کرنے کے لئے کوئی ادارہ قائم کرتے ہیں تو اس پر بھی نامعلوم وجوھات کی بنا پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے اور ہو بھی رہا ہے کہ ہمارے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ان مدارس اور اھل مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اگر کبھی کسی تاریخ دان کے پاس بیٹھ کر کبھی اس بات کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس ملک کے حصول کے پیچھے وہ کون لوگ تھے، جو لوگ اس ملک پاکستان کو دنیا کے نقشے پر لانے میں معاون ومدد گار تھے، جن لوگوں کے پاس قائد اعظمؒ بھی جا یا کرتے کہ حضرت کچھ کیجئے ورنہ یہ ملک ہاتھوں سے نکل جائے گا، وہ لوگ کون تھے۔۔؟ وہ کون سی درس گاہ میں پڑھا کرتے تھے، ان کے سینے میں کس کا کلام تھا ، ان کی زبان پر کس کا ورد تھا، ان کے دل میں کس کی محبت تھی ، ان کے بدن پر لباس کیسا تھا۔۔؟ ان کی چال ڈھال کیسی تھی۔۔۔؟ انہوں نے اتنی عمدہ تعلیم کہاں سے حاصل کی کہ انگریز بھی ان کے آگے گھٹنوں کے بل تھا۔۔؟ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ لوگ مدارس ہی سے برآمد ہوئے تھے، اگر مدرسہ قائم نہ ہوتا تو انگریز تو اپنا کام کر چکا تھا، وہ تو اللہ کا بہت بڑا کرم ہوا کہ انار کے درخت تلے ایک استاد اور شاگرد بیٹھے، اور پھر اس انگریز جس کا چرچہ چار سو تھا ، اس کی ناک میں دم کر کے رکھ دیا۔ لیکن جب اس انگریز کو اپنی شکست کے آثار نظر آئے تو اس نے سب سے پہلے جو کوشش کی وہ لوگوں کو علماء سے دور کرنے کا حربہ تھا، اور پھر اس نے لوگوں کو علماء سے متنفر کیا، اور وہ اس میں خاصہ کامیاب بھی ہوگیا، لیکن اتنا کامیاب وہ نہیں ہوا تھا کہ جتنا ہمارے ہی کچھ لوگوں نے اس کے گلے میں فتح کے تمغے ڈال کر اس کو اس مشن میں کامیاب قرار دیا تھا۔
خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی، اصل بات ہو رہی تھی وفاق المدارس العربیہ کے سال کےاختتام کی۔ جس میں ہزراوں کی تعداد میں نوجوان فراغت پا چکے ہیں۔ آخر وہ لوگ بھی اس ملک پاکستان کے افراد میں شمار ہوتے ہیں، مردم شماری میں ان کے بھی گھرانے گنتی میں آتے ہیں، ان کی بھی زندگی ہے ، ان کے بھی والدین ہیں، ان کے بھی بیوی بچے ہیں، وہ بھی انسان ہیں اللہ نے ان کو بھی ضرورت مند بنا یا ہے۔ انہوں نے بھی بہت بڑی ڈگری حاصل کی ہے، ارے قرآن سے بڑی کتاب کون سی سے، بخاری و مسلم اور اس کے علاوہ اور بہت سے فنون کی عبارات کا سمجھنا کون سا آسان کام ہے۔ آٹھ سال اس معاملے میں وہ محنت مشقت سے گزارتے ہیں، ہماری کون سی حکوت ایسی ہے جس نے ان کے بھی سروں پر ہاتھ رکھا ہو۔ ان کو بھی کچھ سہارا دیا ہو۔ ان کو بھی دیگر تعلیمی اداروں کے طرح مراعات سے نوازا ہو۔ ان کی بھی کچھ امداد ہونی چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان کہا کرتے تھے مدارس میں پڑھنے والے بھی ہمارے بچے ہیں۔ہمیں ان سے امید ہے وہ ان کو نظر انداز نہیں کریں گے، لیکن سوال صرف اتنا تھا کہ آخر کب تک ان وعدوں کی طرف اٹھتے قدم دیکھنے کو ملیں گے جو تخت کے حصول سے پہلے کیے گئے تھے۔ ہمیں ڈرصرف یہ ہے کہ کہ اگر ان کی بھی یہ باتیں گزشتہ حکومت کی طرح گلدستہ طاق نسیاں ہوگئیں تو پھر کوئی نیا چہرہ بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جس سے کچھ امید لگائی جا سکے۔ تو پرنٹ میڈیا کے توسط سے ان کی خدمت میں یہ گزارش ہیکہ کہ بہت سے قابل قابل لوگ آپ سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں، کبھی ان کی طرف رخ کر کے دیکھیں ، تو آپ کو معلوم ہو گا کیسے کیسے قابل نوجوان موجود ہیں، اور اپنی مدد آپ کے تحت گوشا نشینی کی زندگیا ں بسر کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بھی میرٹ پر سرکاری ملازمتوں کا کوٹا ہونا چاہیے۔ تاکہ ان کی بھی کچھ حوصلہ افزائی ہو جائے۔
کورونا کے مہلک وار جاری،مزید 100 افراد جاں بحق،5 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ
احسن اقبال
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
تبصرے بند ہیں.