پانی کا بڑھتا بحران

240

ہمارےروزمرہ معمول کے لیے استعمال ہونے والے پانی میں سے کتنا پانی باقی رہ گیا ہے؟ یہ پوچھنے لائق سوال ہراس پاکستانی سے ہے جو آنے والے سالوں میں پانی کی قلت سے ناواقف ہے۔

انسانی زندگی کے قیام کے لئے پانی انتہائی ضروری ہیں، نہ صرف پینے کے لیے بلکہ معیشت خوراک کی حفاظت سماجی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی ۔پاکستان زراعت پر مبنی ملک ہے لہذا پانی اس میں ایندھن کا کام سر انجام دیتا ہے۔ اسی طرح اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے پانی کی اہمیت بھی وہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان موجودہ وقت میں شدید پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔

پانی کی دستیابی پاکستان میںابھرتا ہوا سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ نہ صرف پینے کے پانی کی کمی ہے بلکہ آب پاشی کے لئے پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف زراعت کے شعبے کو تباہ کیا ہے بلکہ لوگوں کی معیشت پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے جس کے نتیجے میں سماجی اور اقتصادی ترقی پر بھی بہت زیادہ حد تک نقصان پہنچا ہے۔

اس پانی کی قلت کے پیچھے کئی وجوہات موجود ہیں جس میں پانی کے ذخائر اورڈیمز کی کمی ، پانی کے وسائل کے انتظامات کی ناقص پالیسیاں کے ساتھ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی بھی پاکستان میں پانی کی قلت کی وجوہات میں سے ایک ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں تیسرا ملک ہے جو ممالک پانی کی قلت کا سامنا کررہاہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی ڈی) اور پانی کے وسائل میں پاکستان کونسل ریسرچ (پی سی آر ڈبلیو آر آر) نے بھی حکام کو خبردار کیا کہ 2025 ء تک جنوبی ایشیائی ممالک پانی کی قلت تک پہنچ جائے گے۔

پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے2016 کی رپورٹ پر روشنی ڈالی جائے تو 1990 اور 2005میں بھی پاکستان نے پانی کی قلت کا سامنا کیا، آج 2019میں صورتحال اور زیادہ خراب ہوچکی ہے۔

پاکستان پانی کے استعمال میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اس کی پانی کی شدت کی شرح کیوبک میٹر میں کی جاتی ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی فی سالانہ پانی کی دستیابی 1017کیوبک میٹر ہے۔ پاکستان میں پانی کی دستیابی تقریبا 1500کیوبک میٹر تھی جبکہ موجودہ حالات میں پانی کے ذخائر میں 100کیوبک میٹر تک کمی واقع ہو چکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بحران کے پیچھے آبادی میں اضافہ اور شہریت بنیادی سبب ہے ۔اس مسئلے کو آب و ہوا کی تبدیلی، خراب پانی کے انتظام اور بحران سے نمٹنے کے لئے سیاسی خواہشات کی کمی کی وجہ سے بھی زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان پانی کی کمی کی حد تک پہنچ چکا ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشانی کیا ہے کہ پانی کی فراہمی کی آخری سہولت پانی کی فراہمی کا آخری سہارا تیزی سے ختم ہو چکا ہے۔پاکستان کے تمام بڑے میٹروپولیٹن شہروں کراچی اور لاہور میں پینے کے قابل پانی دستیاب ہے۔ شہری علاقوں کے اکثر علاقوں میں پانی کی پائپ لائن زنگ آلودہ ہو چکی ہے جس کی وجہ پانی کا ایک بڑا حصہ زیر زمین ضائع ہو جاتا ہے۔

لہذا ان تمام مسائل کے حل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مناسب اور فوری اقدامات کرنا ہونگے ۔عملی پالیسیوں کو تشکیل دینے اور ان پر عمل کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔اس مسئلے کا حل تمام مستقبل کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ سب سے اوپر ترجیح ہے۔اس وقت پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہے۔ ایک طر ف تو پینے کو پانی نہیں دستیاب تو دوسری طرف موجودہ پانی کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ اس حوالے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے عوام تک صاف پانی کی فراہمی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ واٹر فلٹریشن پلانٹس کی چیکنگ ہو یا مارکیٹ میں دستیاب منرل واٹر کی ٹیسٹنگ، ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر)محمد عثمان یونس صارفین تک محفوظ پانی کی رسائی ممکن بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرتے نظر آتے ہیں۔ پی ایف اے کی جانب سے ان اقدامات کوچیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی سراہا ہے۔

ملک میں پانی کے بحران کی اس خطرناک صورتحال میںنئے ڈیموں کی تعمیر، درختوں کی، گھریلو پانی کے ذمہ دار استعمال، شعور کی مہمات، اداروں کی سطح پر سیمینار چلانے، متعلقہ حکام کے مؤثر کردار اور ذرائع ابلاغ کے بعض عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہم اس مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ہمیں ایک بہتر مستقبل کیلئے ان چیزوں کا احساس کرنا ہوگا۔

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)

تبصرے بند ہیں.