اے قائد… یقین نہیں آتا خواب سفر کیوںرکا ہوا ہے

67

25دسمبر… قائداعظمؒ… یوم پیدائش اور آج کا پاکستان؟ 1947ء سے پہلے کی تحریک آزادی اور 76برس کے بعد کا پاکستان… ہمارے حکمرانوں کی اقتدار کی جنگ… آرزوئیں مات کھا گئیں… خواہشیں حسرتوں کا روپ دھار گئیں… منزلوں کی جستجو نے ہمیں سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا اور بے بس انسان دربدر خاک بسر ہو گئے… ہر طرف ذات، بے برکتی، بے توقیری، بے غیرتی، بے حیائی، بدحالی اور بدنیتی کے کتبے سجائے… پاکستان آج بھی راہنمائی کا منتظر ہے… کیا بدقسمتی رہی کہ ہماری سیاست کے کوچہ عدالت میں کھلنے لگے۔ انتخابات، دھاندلیاں، الزامات … مارشل لائ… ڈکٹیٹرز کے راج، مافیاز کے کاروبار… یہ کیسی بات ہے کہ آج ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیں وہاں نہ احساس ندامت رہا نہ زخموں کا علاج، اقتدار کی جنگ خوفناک دور سے گزرتی رہی… تو پھر فیض احمد فیض بہت یاد آ رہے ہیں۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
وہ لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
رہائی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل قلم کے سر دو پر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا سردود حرم
مسند پر چمکائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غالب بھی ہے حاضر بھی ہے
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
سیاسی عدم استحکام، ڈولتی معیشت، ہوش ربا مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، لوٹ مار، گھیرائو، جلائو، دھرنے‘ شہروں کی بندشیں، آگ اور ماتم کی جنگ، وقت کے ستم میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا… حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، حکمران ادلتے بدلتے رہے، کسی نے تنگ تو کسی نے ننگ کر دیا۔

اے قائد میں شرمند ہوں… آزادی کے بدلے میں ہماری زندگی نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں عذاب بن گئیں کہ ہم آپ کے دیئے روشن اصولوں کو بھول گئے۔ ہم بھول گئے کہ یہ ملک لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، ہم بھول گئے کہ شاعرِ مشرق کا خواب کیا تھا۔ ہم بھول گئے کہ آزادی کی قیمت ہم نے اپنے بزرگوں، مائوں، بیٹوں اور نوجوانوں کے خون کے بدلے میں کس طرح لی کس طرح تحریک آزادی میں سکھوں اور ہندوئوں کی تلواروں سے کتنے سر اور کتنے جسم کٹے ہوں گے۔ ہم بھول گئے کہ غلامی کی قیمت کیا تو آزادی کی روشن صبح کیسے ہوتی ہے۔ ہم بھول گئے کہ آپ نے ہماری نسلوں کے ساتھ احسان کیا اور ہم نے احسان فراموشی کی۔

اے قائد ہم بھول گئے کہ پاکستان کو کس نے سنبھالناتھا، سنوارنا تھا، آگے لے کر بڑھنا تھا۔ ہم نے نظریہ پاکستان بھلا دیا، ہم نے نظریہ ضرورت اپناتے ہوئے پاکستان کی بجائے اپنے مفادات کے سیاسی اتحادبنانے کیلئے آپ نے ہمیں جمہوریت دی۔ ہم نے آمریت قائم کی، آپ نے اتحاد کی بات کی، ہم نے اتحاد توڑ دیئے‘ آپ نے یقین محکم کی بات کی ہم نے بدلے میں عدم اعتماد کی فضاء قائم کی، آپ نے آئین کی بات کی ہم نے آئین کو پھاڑ کر ٹوکری کی نظر کر دیا۔

اے قائد میں شرمندہ ہوں کہ آپ نے ابتدا دی ہم نے انتہا کر دی۔ آپ نے ایک دین کی بات کی، ہم نے ملک میں فرقہ بندی کو ہوا دی۔ آپ نے سچ کی بنیاد رکھی، ہم نے جھوٹ کو سہارا بنا لیا۔ آپ نے مضبوط ہاتھوں کو آہنی طاقت قرار دیا، ہم نے انہی ہاتھوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آپ نے رہنے کے لئے ہمیں زمین دی ہم نے اس کو فروخت کر دیا۔

اے قائد میں شرمندہ ہوں کہ میری آنکھوں نے آپ کے دیئے پاکستان کے ساتھ جو حشر نشر کیا اس پر پوری قوم شاید شرمندہ ہوگی۔
اے قائد… میں شرمندہ ہوں… لٹ گئے خزانے کیا کیا… جو پاکستان آپ نے دیا، جس پاکستان کا آپ نے تصور دیا… جو خوبصورت تصویر دی، جس میں محبتوں کے تمام رنگ شامل تھے، جس میں متحد ہونے کے پیغامات تھے، جس میں ایک خوبصورت گھر کا منظر تھا… وہ گھر ہم نے توڑ دیا… وہ تصور خواب بن گیا، خوبصورت تصویر کو بے رنگ کر دیا۔ محبتوں کو نفرتوں میں بدل دیا… ہم نے خود کمانے کی بجائے دنیا کے آگے ہاتھ ننگے کرکے مانگنا شروع کر دیا… آپ نے جمہوریت کی اقدار کی بات کی، ہم پر دو تین فوجی حکومتیں مسلط کر دی گئیں، ہم نے اقتدار کے نشے میں تین وزرائے اعظم قتل کر دیئے، اسمبلیوں میں کئے جانے والے فیصلوں کے فرائض ہماری عدالتوں نے سنبھال لئے، چار بار حکومتیں 58-2Bکا شکار ہوئیں، 76برسوں میں صرف دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی، ہم نے اپنی ہی کوتاہیوں سے مستحکم پاکستان کو غیر مستحکم کر دیا۔ آپ نے پورا پاکستان دیا، ہم نے آدھا پاکستان تڑوا دیا، صرف اقتدار کی بھوک نے آپ کے خواب کرچی کرچی کر دیئے۔ سیاسی لیڈروں کی بے قدریاں، عدلیہ کی بے جا مداخلتیں۔ ہم نے راتوں رات وزرائے اعظم گھر بھجوانے کی رسم ادا کر دی۔ ہم نے پکے مکانوں کی بجائے کچے مکانوں کو اہمیت دی۔ اپنی انائوں کی خاطر ہم نے ضمیروں کے سودے کر ڈالے، میر و جعفر پیدا کر دیئے۔

اے قائد میں شرمندہ ہوں۔ آپ نے جس طوفان سے کشتی نکال کر ساحل پر پہنچائی ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اس کو ڈبو دیا… ہم نے چپو خود سنبھالنے کی بجائے غیروں کے ہاتھوں دے دیئے۔ آپ نے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی ہم نے مقابلے کے میدان ہی چھوڑ دیئے۔ آپ نے خوشحالی کا نعرہ لگایا ہم نے سب کچھ بدحالی میں بدل دیا۔ آپ نے جرأت کے ساتھ جینا سکھایا، ہم نے بزدلوں کے راستے اپنا لئے… تاریخ نے ہمیں سبق دیا، ہم نے سبق ہی بھلا دیا… اے میرے قائد… آزادی کے 76برس گزرنے کے باوجود یقین کیوں نہیں آتا کہ خواب سفر رکا ہوا ہے۔ کبھی کبھی یوں دکھائی دیتا ہے کہ زمین پر نہ سہی آسمان تو میرا ہے…
اور آخری بات…
آج میرے قائد کا یوم پیدائش ہے۔ یہ دن ہم ہر سال 25دسمبر کو مناتے ہیں، آج بھی منائیں گے… مگر ان ہمتوں… ان جذبوں، ان قوتوں، ان محبتوں، ان چاہتوں کے ساتھ نہیں جو کہ 14اگست 1947ء کی رات 12بجے قائداعظمؒ نے ہمیں دیئے تھے۔

تبصرے بند ہیں.