فائنل نہیں فراڈ کال

74

سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ فائنل کال تھی یا فراڈ کال۔۔؟غریب کے بچوں کوانقلاب اورتبدیلی کے سپنے دکھاکراسلام آبادلے جایا گیا اور پھر مارکٹائی کے لئے ڈی چوک میں تنہاء چھوڑکریہ بہادراورغیرت مندرات کی تاریکی میں ایسے بھاگے کہ پھر پیچھے مڑکردیکھابھی نہیں۔پتلی گلی سے چوہے کی طرح بھاگتے بھاگتے کم ازکم آنسوگیس کے دھویں میں آنکھیں ملنے والے غریب اور لاوارث کارکنوں کوبے شرمی اورندامت کی ایک نظرسے دیکھ تو لیتے۔ نسلی اوراصلی قسم کے سیاستدان ولیڈر تو ایساکام نہیں کرتے۔ایسی حرکت تووہی لوگ کرتے ہیں جن کاسیاست،ریاست اورانسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ کیابات ہوئی کہ قوم کے غریب بچوں کوآپ تبدیلی اور انقلاب کے ادھورے خواب وسپنے دکھاکراسلام آبادلے جائیں اورپھر جب آپ ہی کے کالے کرتوتوں،ہٹ دھرمی،بدنظمی اور بدمعاشی کی وجہ سے آگے یاسامنے سے انڈے وڈنڈے برسنے لگیں توآپ قوم کے انہی غریب بچوں کوآگے کرکے خودراتوں رات موقع سے فرار ہو گئے۔؟ کیا قوم کاکوئی حقیقی لیڈر، سیاستدان اور رہنما ایسا کر سکتا ہے۔؟ لیڈر، رہنما اور سیاستدان تو وہ ہوتے ہیں جوایسے مواقع اورمرحلے پراپنے کارکنوں،ووٹروں اورسپورٹروں کے ساتھ کھڑے ہو جایاکرتے ہیں۔قوم کے غریب بچوں کومشکل اور آزمائش میں چھوڑ کر موقع سے بھاگنے اور فرار ہونے والوں کوہماری زبان میں لیڈرنہیں گیڈر کہا جاتاہے۔یہ حالات کامقابلہ نہیں کرسکتے تھے اور انڈے وڈنڈے کھانے کی ان میں ہمت نہیں تھی تو پھر قوم کے غریب بچوں کواس سردی میں چوکوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر ذلیل و رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔؟سیاسی کارکن اگراپنے بچوں جیسے ہوتے ہیں توکیااپنے بچوں کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے۔؟دنیامیں توایساکوئی باپ یاماں نہیں ہوگی جو اپنے بچوں کواس طرح چھوڑکربھاگ جائے۔ویسے انقلاب کے ان نام نہادعلمبرداروں نے پی ٹی آئی کے غریب کارکنوں کے ساتھ وہی کام کیاجوہمارے ایک دوست کے ساتھ ان کے کچھ شریرقسم کے دوستوں نے کیاتھا۔ندیم خان یہ چناروں کے شہر ایبٹ آبادمیں رہتے ہیں اورایک پرائیوٹ لیب میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔چندسال پہلے کی بات ہے اس نے دعوت کے نام پرکچھ دوستوں کاجینا حرام کیا۔اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے اورہرمحفل میں اس کی ایک ہی بات ہوتی کہ مجھے دعوت کھلائی جائے۔دوست بھی آخرکب تک صبرکرتے ایک دن سب نے باہمی مشاورت سے ندیم خان کوکال کرکے دعوت پربلایا۔وہاں پہنچتے ہی دوستوں نے لاتوں اورمکوں سے ندیم خان کاوہ اکرام کیاکہ ندیم خان پھردعوت کانام ہی بھول گئے۔ یہی کچھ پیرو مرشد نے غریب مریدوں کے ساتھ بھی کیا۔سب مریدوں کوفائنل کال کی گئی کہ ڈی چوک میں انقلاب کاحلوہ اورتبدیلی کی بریانی باالکل تیار ہے۔ بس ہر حال میں پہنچنا ہے۔سادہ اورجاہل مریدوں نے بھی آؤدیکھااورنہ تاؤ۔سب ایک کال پرایسے ڈی چوک پہنچ گئے کہ جیسے انہوں نے زندگی میں کبھی حلوہ کھایاہی نہ ہو۔ لیکن پھرڈی چوک میں ان مریدوں کے ساتھ جوکچھ ہوااس پریہ اب بھی آنسوبہارہے ہیں۔کل تک تحریک انصاف کے جو عہدے دار،ایم این ایزاورایم پی ایزسادہ لوح عوام اورپی ٹی آئی کے نادان کارکنوں کوجھوٹے خواب اورسپنے دکھا کر انقلاب وتبدیلی کے فضائل بیان اورسبق پڑھاتے رہے ،وقت آنے پرپھروہی ارسطوڈی چوک سے دم دباکرایسے بھاگ نکلے کہ جیسے بھاگنے سے بڑی نعمت اور بہادری اورکوئی نہ ہو۔ کیاانقلاب ایسے آیاکرتے ہیں۔؟ کیا غریب کارکنوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کرانہیں حالات کے بے رحم موجوں وتھپیڑوں کے آگے چھوڑ کرمیدان سے الٹے پاؤں بھاگنے والے کبھی تبدیلی لاسکتے ہیں۔؟ تحریک انصاف کے بڑوں اورنام نہاد لیڈروں نے غریب کارکنوں کواپنی سیاست کے لئے ریاست کے سامنے کھڑاکرکے صرف ظلم نہیں بہت بڑاظلم کیاہے۔ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ ان لیڈروں اور سیاستدانوں کواپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے غریبوں اور دوسروں کے گھرنہیں اجاڑنے چاہئیں۔ فائنل کال کے نتیجے میں جولوگ جان سے گئے،زخمی ہوئے یاگرفتارہوکراب جیلوں میں ہیں ان کے ماں باپ،بیوی بچوں اوربہن بھائیوں پراب کیا گزرے گی۔؟ جو لوگ شہید ہو چکے ہیں کیاوہ اب واپس آئیں گے۔؟یہ لیڈر اور سیاستدان کل بھی بڑھکیں ماررہے تھے یہ آج بھی مونچھوں کوتاؤدے رہے ہیں اوریہ کل بھی اسی طرح لوگوں کوجھوٹے خواب اورسپنے دکھائیں گے لیکن جوکارکن اللہ کے حضورپہنچ چکے ہیں وہ تواب کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ان لیڈروں اور سیاستدانوں کوکل جب ان شہید کارکنوں کے ورثاء دیکھیں گے سنیں گے توکیاانہیں اپنے پھول جیسے بچے یادنہیں آئیں گے۔؟ڈی چوک سے رات کے اندھیرے میں الٹے پاؤں دوڑلگانے کامنظرتویہ لیڈراورسیاستدان آج نہیں توکل بھول جائیں گے پرکیافائنل کال کی بھینٹ چڑھنے والے غریب اوربدقسمت سیاسی کارکنوں کی مائیں،بہنیں،بیٹیاں اوربھائی یہ مناظراوریہ دن کبھی بھول پائیں گے۔؟یہ فائنل کال ایک ڈراؤناخواب بن کراب قبرتک ان ماؤں کاپیچھاکرے گی۔شہیدوں کی مائیں اورورثاء ہزار اور لاکھ کوششوں کے باوجوداس کال سے جان چھڑانہیں پائیں گے۔ان نام نہاد لیڈروںاورسیاستدانوںکے بچے امریکہ، انگلینڈ، آسٹریلیا اور جاپان میں عیش وعشرت کرتے ہیں یاپھراپنے محل نماگھروں میں بیٹھ کرآرام فرما رہے ہوتے ہیں لیکن غریب کے بچوں کویہ اپنی سیاست،خباثت اورمنافقت کے لئے شہرشہراورگلی گلی ذلیل وخوارکرتے ہیں۔ان سیاسی جلسوں، جلوسوں، احتجاج،مظاہروں اوردھرنوں میں جب بھی مرتاہے توغریب کابچہ مرتاہے۔کیاآج تک کسی لیڈر اور سیاستدان کاکوئی بچہ کسی احتجاج ،مظاہرے اوردھرنے میں مرا۔۔؟ان کے بچے ایسے فضول کاموں میں شامل وشریک ہی نہیں ہوتے تووہ مرے کہاں سے۔؟کیاانقلاب اور تبدیلی صرف غریب کے ہی خون سے آئے گی۔؟ انقلاب اورتبدیلی کااگرغریب کے بچے کومارنے کا نام ہے توپھرایسی تبدیلی اورانقلاب پرایک نہیں ہزار ولاکھ بارلعنت۔کیونکہ ایک غریب کو اپنا میلا کچیلابچہ بھی اتنا پیارا ہے جتناایک لیڈر اور سیاستدان کواپنابچہ۔اس لئے تم سیاست کرو یا خباثت،ایک نہیں ہزار بار کرو لیکن خداراکسی غریب کے بچے کواپنی سیاست اور خباثت کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔کوئی وزارت، اقتدار اور کرسی نہیں یہی بچے ان غریبوں کے واحد اسرا ہوتے ہیں ۔جب بھی کسی احتجاج،جلسے،جلوس ،مارچ اوردھرنے میں کوئی غریب مرتاہے تو پھر برسوں تک یہ غم بھولانہیں جاتا۔فائنل کال توکپتان اورگنڈاپورجیسے کھلاڑی آج نہیں توکل بھول جائیں گے لیکن جوغریب اس کاایندھن بنے ہیں ان کے ماں باپ اوررشتہ داراس،،آفت کال،، کوکیسے بھولیں گے۔۔؟

تبصرے بند ہیں.