احتجاجی کال کا دھڑن تختہ

36

 

اس سے پہلے کہ تحریک انصاف کی فائنل کال کی مکمل ناکامی پر بات کریں پہلے ان کی سیاسی حرکیات سے بے خبری اور لاعلمی کی انتہا دیکھیں کہ حکومت نے انھیں سنگجانی میں دھرنے کا آپشن دیا تھا اگر وہاں چلے جاتے تو حکومت ان کے خلاف کچھ کرنے کی بجائے ان کی حفاظت کرتی اور وہ جگہ چونکہ شہر سے ہٹ کر ہے تو وہاں انھیں ضروریات زندگی پوری کرنے کے حوالے سے بھی مشکل نہیں ہونی تھی ۔جب ماحول شانت ہوتا تو اس کے کرا¶ڈ میںجتنا اضافہ ہوتا جاتا اسی طرح تحریک انصاف کی مذاکرات کی پاور بڑھتی جاتی اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے پا جاتے لیکن اس کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جو مرضی کہتے رہیں لیکن انھیں تو حقیقت پتا تھی کہ ان کے ساتھ کتنے بندے ہیں تو اس کے مطابق حکمت عملی کیوں نہیں بنائی گئی اور صرف دھمکیاں اور بلیک میلنگ ہی سے کام چلانے کی ناکام کوشش کیوں کی گئی لیکن یہ دیکھیں کہ دھمکیاں اور بلیک میل کس کو کر رہے تھے کہ جس حکومت کے پاس حقیقت حال جاننے کے لئے درجن سے زیادہ ایجنسیاں ہوتی ہیں تو کیا وہ ان کی گیدڑ بھبھکیوں میں آتی اور پھر اس نے ڈیڑھ گھنٹے میں اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا ۔ تحریک انصاف کی یہ کال خود اس کے لئے اتنا بڑا خود کش حملہ تھا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے بعد سب سے بڑا دھچکہ تو تحریک انصاف کے اس بیانیہ کو لگا ہے کہ جس میں وہ اپنے آپ کو ملک کی سب سے مقبول جماعت ثابت کرنے پر اصرار کرتی تھی لیکن اب یہ بیانیہ دفن نہیں تو بڑی حد تک دھندلا جائے گا ۔ اس کے بعد آپ یہ دیکھیں کہ اینٹی ٹیررسٹ کورٹ نے 9 مئی کے جناح ہا¶س سمیت 8 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں ۔ عدالتیں بھی اکثر اوقات ماحول دیکھ کر فیصلے کرتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حالات تحریک انصاف کے حق میں ہوتے تو عین ممکن ہے کہ عدالت کا فیصلہ مختلف ہوتا ۔ اس کے علاوہ خان صاحب کا بیان بھی تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ 26 ویں ترمیم جس دن پوری طرح فعال ہو گئی کہ اسلام آباد سمیت پانچوں ہائیکورٹس میں آئینی بینچ بن گئے اور عدلیہ میں ججز کی تعداد پوری ہو گئی تو ہر طرح کا ریلیف ملنا بند ہو جائے گا اور یہ بہت جلد ہو گا کہ سندھ ہائیکورٹ میں تو 9 رکنی آئینی بینچ بن بھی گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ حکومت کو بھی پتا چل گیا ہے کہ تحریک انصاف کے دعو¶ں کے برعکس یہ جماعت کتنے پانی میں ہے لہٰذا اس کی بارگیننگ پوزیشن ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اب اول تو حکومت جلد تحریک انصاف سے مذاکرات نہیں کرے گی اور جب مذاکرات ہوںگے تو وہ حکومتی اور اسٹبلشمنٹ کی شرائط پر ہوں گے ۔
اس وقت جبکہ تحریک انصاف کی فائنل کال بری طرح ناکام ہو کر ختم شد ہو چکی ہے تو حال کی گھڑی میں راوی حکومت کے حق میں چین ہی چین لکھ رہا ہے اور حکومت کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور تحریک انصاف نے اپنا سر اپنی حماقتوں سے کڑاہی میں ڈال دیا ہے لیکن پاکستان کی مجموعی سیاست ہی نہیں بلکہ اس کے پاکستان کی معیشت پر بھی بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس کی شروعات کا اندازہ اسٹاک ایکسچینج کی صورت حال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس کا ہنڈرڈ انڈیکس ایک لاکھ کا فگر کراس کر چکا ہے ۔ آپ اس پر بھی غور کریں کہ دو دن پہلے جب معاملات کے بگڑنے کا خدشہ پیدا ہوا تو اسی اسٹاک ایکسچینج کے ایک دن میں تین ہزار سے زیادہ پوائنٹس کی کمی ہوئی اور اسی لئے میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا ۔ ایک تو معیشت بہتر ہو گی دوسرا اب تحریک انصاف کے لئے صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ عدالتی محاذ پر بھی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور آنے والے دن تحریک انصاف کے لئے کوئی اچھی خبریں لے کر نہیں آئیں گے ۔ اس لئے کہ فائنل کال جیسا ماسٹر اسٹروک ایسا بلنڈر ثابت ہوا ہے کہ جس کے منفی اثرات کا سامنا تحریک انصاف کو ایک عرصے تک رہے گا اور پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف پہلے بھی تنہائی کا شکار تھی لیکن اب مزید تنہائی میں چلی جائے گی اور قومی سیاست میں اس کی اہمیت کم ہو جائے گی ۔ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری چونکہ تحریک انصاف کی قیادت کے سر جاتی ہے تو اب پاکستانی سیاست میں ہی نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے اندر بھی عمران خان کا وہ جو ایک آمرانہ کردار تھا اسے بھی دھچکہ لگے گا ۔ تحریک انصاف اگر اب بھی غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کے سحر سے باہر نہ نکلی زمینی حقائق کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی کردار مزید محدود ہوتا جائے گا اور اگر اس نے اتحاد بنایا ہی تھا تو کم از کم اپنے اتحادیوں کو ہی ساتھ لے کر چلتی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ سے کچھ سیکھتی کہ جو ایم آر ڈی بنا کر ہمیشہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلی حالانکہ اس کے قیام کے وقت محترمہ نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ آج حالات کی مجبوری کی وجہ سے انھیں بھٹو کے قاتلوں سے ہاتھ ملانا پڑ رہا ہے ۔
اب کوئی کچھ بھی کہے لیکن ایک بار نہیں دو بار نہیں تین بار نہیں بار بار احتجاج کی ناکامی اور اس سے بھی زیادہ اہم کہ تینوں صوبوں اور خاص طور پر پنجاب سے احتجاج کے لئے کسی کا نہ نکلنا اس کے بعد تو یہ لگتا کہ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان ان تینوں صوبوں میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں در حقیقت فارم 47والوں کی حکومت ہے اس لئے کہ اس صوبہ میں حکومت تحریک انصاف اور تمام تر وسائل ، طاقت اور صوبے کی پوری مشینری کو ساتھ لے کر وفاق پر چڑھائی کی گئی اور یہ تینوں بار ہوا تو اٹک کے پل کے بعد رہنے دیں لیکن اس سے پیچھے خیبر پختون خوا کے علاقہ تک تو کم از کم پانچ سات لاکھ بندہ ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہاں پر عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.