قومی معیشت کی بحالی کے لیے امن اور سیاسی استحکام ضروری ہے یہ امر اطمنان بخش ہے کہ عسکری قیادت اِس حوالے سے سیاسی قیادت کے ساتھ یکسو ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جوخوش آئندہے بدقسمتی سے اپوزیشن کا کام احتجاجی سیاست سے حکومت کو زچ کرنا روایت بن چکاہے اور آجکل ملک کوپھر ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس سے سرمایہ کاری کا تسلسل ٹوٹ سکتاہے۔
اب جبکہ دنیا کے کئی ممالک سے حکومتی اور نجی سطح پر روابط میں تیزی آئی ہے اور بیرونی وفود سے تجارتی معاہدے خاصے حوصلہ افزا ہیں اِن حالات میں جس امن اور استحکام کی ضرورت ہے وہ ملک میں ناپیدہے جس سے خطرہ ہے کہ کہیں عالمی اقوام بددل ہوکر کسی اور طرف متوجہ نہ ہو جائیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ پچاسی ہزار آٹھ سو چھتیس ارب ہو گیا ہے قرضوں کے بڑھتے دباﺅ سے عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کااندازہ ہے کہ 2025تک قرض اور واجبات بجٹ کے چالیس فیصد تک ہوسکتے ہیں جس کامطلب ہے کہ کُل بجٹ کا چالیس فیصد سود اور اقساط کی ادائیگی کی نظرہوجایا کرے گا اور دفاع،صحت،تعلیم اور دیگر اخراجات کے لیے مزید قرض لیناہماری مجبوری ہوگا حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کی ناگفتہ بہ حالت کا ادارک کرتے ہوئے تمام فریق اپنی زمہ داریاں پوری کریں اور ایک دوسرے کوزچ کرنے والا رویہ بدلیں اور ملک کے بارے سوچیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تشویشناک معاشی صورتحال کوبہتر بنانے کے لیے کردار اداکرنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن دونوںکارویہ ضدوہٹ دھرمی پرمبنی ہے یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی اپنے گھر کی بنیادیں کھودتے ہوئے یہ تصورکرے کہ گھر کی مضبوطی متاثر نہیں ہوگی گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں سیاسی استحکام ناپید ہے اِس کے باوجود کوئی بھی فریق اپنی ضد وہٹ دھرمی ترک کرنے پرتیار نہیں دونوںایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں حالانکہ اب تو دوست ممالک بھی خراب معاشی حالات پر توجہ مبذول کرانے لگے ہےں لیکن ملک کے مقتدرطبقات کی لاپروائی اور غیر ذمہ داری پر مبنی رویے سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتاکہ وہ ملک و قوم کے مفاد کی خاطرضدوہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ ہیں جسے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیاجا سکتا یہ رویہ اپنی ذات پر قومی و ملکی مفاد کو قربان کرنے کے مترادف ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں ایسی سیاست نہیں ہوتی جس طرح کی سیاست وطنِ عزیز کا مقدرہے یہاں وقفے وقفے سے جتھے دارالحکومت پر چڑھائی کرتے رہتے ہیں کسی کو حکومت سے شکوہ ہوتا ہے تو کسی کو امن قائم کرنے والے اِداروں کاکردار پسند نہیں ہوتا کوئی قومیت پرستی کا عملبردار، تو کوئی صوبائیت کا راگ آلاپ رہاہوتا ہے یہ پنپنے کے اطوار نہیں بلکہ نفاق کی آبیاری کے مترادف ہے ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں کا تقاضا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے سیاسی و ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ملک وقوم کے بارے سوچا جائے تاکہ قرضوں میں جکڑے پاکستان کی معیشت بہتر ہو۔
ایس سی او کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کا نہ صرف عالمی امیج بہتر ہوا بلکہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں بھی مدد ملی مڈل ایسٹ کے کئی ممالک کی طرف سے بھی سرمایہ کاری کاعندیہ دیا گیا لی اور اِس حوالے سے کئی بھاری معاہدے طے پائے روس اور بیلا روس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں نے بھی مشترکہ منصوبوں کی خواہش کا اظہار کیا آئیڈیاز 2024 سے نہ صرف فروغ پذیر دفاعی صنعت سے دنیا آگاہ ہوئی بلکہ آمدہ برس بجٹ میں دفاعی ہتھیاروں کی برآمد سے حاصل ہونے والی رقوم بڑھنے کا امکان ہے چین جو ایک سے زائدبارملک میں سیاسی استحکام کا مطالبہ کرچکا ہے تاکہ پالیسیوں میں تسلسل رہے لیکن ملک کی سیاسی قیادت اپنے روزوشب پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں اب تو بدامنی سے تنگ آکر چینی قیادت باقاعدہ خفگی کا اظہار کرنے لگی ہے یہ صورتحال ثابت کرتی ہے کہ دوست ممالک ہمارے اطوار سے تنگ اور مایوس ہیں حالات کاادراک کرنے کی بجائے اپوزیشن نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کردی ہے حالانکہ کسی کو تحفظات یا خدشات ہیں تو اظہار کے اور بھی کئی طریقے ہیں جن سے احتجاج ریکارڈ کرایا جا سکتاہے اسلام آبادپر چڑھائی کرناہی ضروری تو نہیں نہ ہی عین پارلیمنٹ کے سامنے تماشہ لگانے سے احتجاج کے نتائج بہترہو سکتے ہیں کیااحتجاج کے لیے لازم ہے کہ ذرائع آمدورفت ہی بندکردیے جائیں؟ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ایسااحتجاجی رواج دنیاکے کسی اور ملک میں نہیں جیسا ہمارے یہاں رائج ہے۔
بیلا روس کے صدر لوکا شینکو کی سربراہی میں اسی رُکنی وفد چار دن کے دورے پر اسلام آباد میں رہا اِس دوران تجارت بڑھانے،ٹیکنالوجی کی منتقلی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کی مفاہمتی یاداشتیں طے پارہی ہیں لیکن دارالحکومت میں امن و سکون نام کی حد تک بھی نہیں اپوزیشن کے شور و افراتفری کا دنگل عروج پر رہا حالانکہ ہوشمندی کا تقاضاتویہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے زعما بات چیت سے کوئی ایسا مفاہمتی حل تلاش کرتے کہ احتجاج اگرمکمل طورپرختم نہ بھی ہوتاتو کم ازکم وقتی طورپرہی سہی ملتوی کر دیا جاتا ۔
تحریکِ انصاف کی قیادت وکلا کے پاس ہے ظاہر ہے وہ آگاہ ہوں گے کہ کسی ایسے قیدی کو حکومت معاہدے کے نتیجے میں رہانہیںکر سکتی جس کے درجنوں کیس انڈرٹرائل ہوں اور کچھ میں سزابھی سنائی جا چکی ہومیں یہ نہیں کہتا کہ تمام کیس درست ہیں بلکہ غلط بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں حکومتوں کا تختہ مشق اکثر اپوزیشن ہوتی ہے لیکن رہائی بہرحال عدالتی فیصلوں سے ہی ممکن ہے علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیلا روس کے وفد کی آمد کے حوالے سے احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دے رکھا ہے مگر پی ٹی آئی کی قانوندان قیادت عدالتی احکامات تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے زرادل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ انداز گھر کی جڑیں کھوکھلی کرنے والا نہیں ہے؟اگر ہے توحکومت اور اپوزیشن دونوں سے دست بستہ التماس ہے اپنا رویہ بدلیں ۔
تبصرے بند ہیں.