ایک عرصہ سے جس احتجاجی کال کا انتظار کیا جا رہا تھا وہ بالآخر سامنے آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور قائد عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کو 24نومبر 2024ءکو اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دیدی ہے۔ پی ٹی آئی عمران خان ہے اور عمران خان اپنے چاہنے والوں کیلئے ایک مرشد اور پیر کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہا گیا ان کے لئے حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔ مریدین نے سوشل میڈیا پر ایک سماں باندھا ہوا تھا کہ دیکھنا جب مرشد آخری کال دے گا تو پھر سب کچھ الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ تاج و تخت اچھال دیئے جائیں گے، حکومت کے دن گنے جائیں گے۔ بہرحال وہ کال دی جا چکی ہے۔ 24نومبر ڈی ڈے بن گیا ہے۔ عمران خان آخری بال تک کھیلنے اور کھیلتے رہنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں بھی آخری کال دے دی ہے، اب تخت یا تختہ کئے جانے کے لئے کارکنان نہیں بلکہ مریدین کو دعوت جہاد دے دی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مریدین میں شوق شہادت کہاں تک ہے۔ وہ اپنے مرشد کی رہائی کیلئے جانوں کی قربانی دینے کے لئے شوق شہادت لئے کیسے میدان جہاد میں اترتے ہیں۔ میں یہ لفاظی نہیں کر رہا ہوں بلکہ گنڈاپور کے اس بیان کے حوالے سے بات کر رہا ہوں جو کہتے رہے ہیں کہ ”کفن باندھ کر نکلیں گے“ اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار واپسی نہیں ہوگی گویا مقاصد کے حصول تک یا مطالبات پورے ہونے تک میدان جنگ سے واپسی نہیں ہوگی۔ واہ جی واہ کیا بات ہے علی امین گنڈاپور کفن بردار مجاہدوں کے ساتھ، مرشد کی کال پر اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
عمران خان کو جب ہماری باجوہ اسٹیبلشمنٹ نے جب گود لیا تو پھر تمام ریاستی ادارے ان کی ذہنی ساخت وپرداخت میں لگ گئے تھے۔ ان کی شخصیت کی عظمت کا ایک بت تراشا گیا، انہیں قیادت کے بلند مرتبے کا فرد بتانے اور ثابت کرنے میں ریاستی وسائل جھونک دیئے گئے یاد کریں 2011ءمیں عمران خان اور ان کی پارٹی کی کیا حیثیت تھی۔ عمران خان کو ایک غیر سنجیدہ اور بڑبولے ہیرو کے طور پر عوامی پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ 2011ءکے مینار پاکستان کے جلسے میں انہیں عظیم قائد کے طور پر لانچ کیا گیا۔ انہوں نے موجودہ سیاسی قائدین بشمول نوازشریف، شہبازشریف اور ان کے خاندان، آصف زرداری اور ان کے خاندان، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور علیٰ ھذا القیاس، ہر ایک کے لتے لینا شروع کر دیئے تھے۔ ایک طوفان بدتمیزی تھا جو بپا کیا گیا۔ مقتدرہ دونوں حکمران جماعتوں اور دیگر مقتدر سیاست دانوں کے خلاف عمران خان کو مقبول بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کا وہ روپ سامنے آیا جو اب تک پاکستان کے لئے سوہان جسم و روح بنا ہوا ہے۔
بطور حکمران عمران خان کی نااہلی و نالائقی نے نہ صرف قومی معیشت کو مکمل تباہی و بربادی کے دھانے پر لاکھڑا کیا بلکہ سفارتی محاذ پر بھی پاکستان تنہائی کا شکار ہو گیا۔ بہت پرانی بات نہیں ہے جب دنیا کے تمام مالیاتی و زری اداروں نے پاکستان کے ساتھ تعاون بند کر دیا تھا۔ چین، سعودی عرب، ترکی اور دیگر برادر اسلامی ممالک کے ساتھ بھی حالات و معاملات کشیدہ ہو گئے تھے۔ مقتدرہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو معاملات کو درست کرنے کی کاوشیں شروع ہوئیں۔ آئینی طور پر، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ایوان اقتدار سے باہر نکالا گیا پھر احمقانہ انداز میں انہوں نے خود کو پارلیمان سے ہی باہر نکال لیا پھر واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ عمران خان مقتدرہ کے خلاف باغی کے روپ میں سامنے آئے۔ 9مئی ہوا۔ عمران خان کی جماعت پاکستان کے خلاف ہی چل نکلی۔ ”خان نہیں تو پاکستان نہیں“ کی باتیں ہونے لگیں۔ پاکستان بیک آن ٹریک پر چل نکلا ہے۔ معاشی معاملات میں خرابی کم ہو رہی ہے، معاملات بہتری کی طرف جانے لگے ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ پاکستان کے معاملات بہتر ہونے لگے ہیں۔ سفارتی محاذ پر بھی بہتری نظر آنے لگی ہے۔ سرمایہ کاری کے بند دروازے بھی کھلنے لگے ہیں۔ ایسے میں عمران خان نے آخری کال دے کر ملک کو ایک بار پھر انتشار کا شکار بنانے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ درست ہوگی لیکن اس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہی زیادہ ہوتا ہے عملاً تحریک انصاف بکھر چکی ہے، اس کی صف اول کی قیادت روپوش ہے یا غیر فعال ہے۔ دوسرے درجے کی قیادت باہم دست و گریبان ہے۔ عمران خان کی بیوی بھی میدان میں چھوڑی گئی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کی بہنیں ہیں۔ عجیب کھچڑی پکی نظر آ رہی ہے۔ آخری کال سے پہلے بھی پانچ کالیں دی جا چکی ہیں۔ وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ حکومت کو پریشان کرنے کی حد تک تو وہ کامیاب نظر آتی ہیں لیکن وہ اس قدر کامیاب نہیں ہو سکیں کہ حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیں۔
اب آخری بال کی طرح آخری کال بھی سامنے آ چکی ہے۔ میڈیا پر اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں تبصرے شروع ہو چکے ہیں۔ کامیابی کا ذکر تو جب ہوگا جب مارچ کے مطالبات سامنے آئیں۔ ویسے عمران خان کی رہائی اولین مطالبہ ہے باقی مطالبات تو کمپنی کی مشہوری کیلئے ہیں۔ اصل ہدف حکومت پر دباﺅ ڈالنا ہے سین بنانا ہے، خبر بنانی ہے تاکہ امریکی قیادت کو کچھ کہنے اور کرنے کا بہانہ مل سکے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ عمران خان کے مربی سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے ساتھ تفتیش مکمل ہوچکی ہے۔ انہوں نے خاصی حد تک تفتیش کنندگان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ کئی ایک انکشافات بھی کئے ہیں جن کے اثرات عمران خان کے مقدمات پر پڑنا ہیں۔ ان اثرات کو کمزور کرنے اور رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کیلئے عمران خان نے فیصلہ کن آخری بال کی طرح آخری کال دے ڈالی ہے۔ بظاہر حالات اس کے لئے موافق نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمیں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہی سب کچھ نہیں ہے، بہت کچھ اور بھی ہے جو ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے لیکن عمران خان کے غیر ملکی ہینڈلرز وہ سب کچھ بھی دیکھ رہے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک تکلیف دہ عنصر (IRRITANT) بن چکے ہیں جن سے گلو خلاصی کرانا بہت ضروری ہے وگرنہ پاکستان کو، پاکستانی سیاست کو، پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ پاکستانی معاشرت تو ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکی ہے۔ ایک پوری نسل بدتمیزی و بداخلاقی کے اعلیٰ مقام پر پہلے ہی فائز ہو چکی ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.