کچھ برس پہلے لوگ آئٹم سانگ سے واقف نہیں تھے۔ اسے آپ فراوانیِ نعمت کی بدولت پائی جانے والی فارغ البالی کہیے یا پھر خوش ذوقی اور ذہانت کہ لوگ فنِ موسیقی میں بھی اعلیٰ معیارات کو فروغ دیتے تھے۔کلام ، راگ ، سْر ، تال ، ادائیگی کے ساتھ سنگت اور فن کار کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ سٹیج پرفارمنس بازاری نہیں ہوتی تھی۔
آوازِ نشاط کو مکمل فنکارانہ لطافتوں کے ساتھ قبول کیا جاتا تھا۔ گلو کار خود کلام کے انتخاب میں خاصے حساس ہوا کرتے تھے۔ تلفظ میں درستی کی غرض سے اکثر ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک میں جایا کرتے تھے۔ میرے والد اور چچا زمانہ طالب علمی میں لاہور قیام کے دوران اکثر احسان دانش کی رہائش گاہ پر چلے جایا کرتے تھے۔ وہاں موسیقاروں، گلوکاروں کے علاوہ ادا کاروں اور شاعروں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ الفاظ کی صحیح ادائیگی اور لب و لہجے کی درستی کو زندگی کے بنیادی ضابطوں کی طرح اختیار کیا جاتا تھا۔ اکثر کسی لفظ کے تلفظ پر بحث شروع ہوتی تو مجلس میں نسیم اللغات کے اشعار کی مثالوں سے طول پکڑتی ہوئی احسان دانش کی عدالت میں پہنچ جاتی۔ احسان دانش بڑی محبت سے رہنمائی فرماتے اور تشنگان علم و ادب کو سیکھنے کے لیے ایک نئی بات مل جایا کرتی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب زبان و بیان کی صحت کا خیال جسمانی صحت سے عزیز تر رکھا جاتا تھا اور بات چیت سے شخصیت اور خاندان کی سماجی قدر و منزلت کا تعین کیا جاتا تھا۔
پھر زمانے نے کروٹ بدلی۔ کلاسیکی موسیقی کی جگہ نئے میوزک نے لے لی۔ جدید آلات کے استعمال نے آوازِ نشاط کو چار چاند لگا دیئے اور موسیقار نئے اور پرانے رنگوں کے امتزاج سے میوزک پیش کرنے لگے۔ پاپ میوزک نے شاعری سے زیادہ میوزیکل آلات پر انحصار کیا اور زیادہ تر سادہ اور عام فہم کلام پر گانوں کی دھنیں ترتیب دیں۔
بعد ازاں انسانی زندگی پر کمرشلائزیشن نے ایسی یلغار کی کہ پہننے اوڑھنے، کھانے پینے سے لے کر نہانے تک کو کمر شلائز کر دیا گیا ہے۔ موسیقی نے معاشرے میں اپنے لیے اتنا ہی حصہ انتخاب کیا جتنا اشتہارات کر رہے تھے اور اس کی حیثیت اشتہاری ہوتی جارہی تھی۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ کوئی کام جب تک اشتہار کے مقام تک نہ پہنچ جائے سراہا نہیں جا سکتا۔ اس اشتہاری کلچر نے معیار تو کجا صحیح اور غلط کی تفریق کو بھی ختم کر کے شہرت کو زندگی کا لازمی جزو بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی ڈھب پر آئٹم سانگ سامنے آیا۔ اسے فن کے جن طور طریقوں سے بھی جوڑا جائے اس کے عامیانہ پن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عام بلکہ بازاری زبان، اشتہاری موسیقی اور تماشائی پسند قرینۂ اظہار۔ یہ گانے اچھل کود کے جتنے مواقع فراہم کریں گے مقبولیت کے اتنے ہی درجے طے کرتے چلے جائیں گے۔
شاعری بھی کمرشلائزیشن اور اشتہاری کلچر سے نہ بچ سکی۔ یہ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث سے نکل کر ادب برائے شغل اور ادب برائے شہرت کے دور میں داخل ہو گئے۔ پیچیدہ خیالات کی بندش، معنی آفرینی، تہہ داری، طرفگیِ خیال اور تخلیقی ابہام جیسی خوبیاں مشکل پسندی کی تہمت سے رخصت ہوتی گئیں۔پھر آسان شاعری اور عوامی شاعری کے ساتھ ہی کمرشل شاعری اور بھانڈوں کی شاعری میدان میں آ گئی۔ خالد مسعود صاحب نے پنجابی اور اردو کے اختلاط سے جو مزاحیہ شاعری تخلیق کی اس کا ایک پہلو یہ ہو سکتا تھا کہ دونوں زبانوں کے تخلیقی جوہر کو بروے کار لا کر شعر کہا جا سکے لیکن بعد میں اس طرزِ عمل کی پیروی کرنے والوں نے جو حشر اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں کے بے محل اختلاط سے بپا کیا گیا اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
اب ہم کلاسیکی غزل، جدید اور مابعد جدید غزل کے علاوہ ” آئٹم غزل” یا ” آئٹم نظم” بھی دیکھتے ہیں۔ آئٹم غزل میں بھی کلام سے زیادہ دیگر سہولیات سے استفادہ کیاجاتا ہے۔ بعض شعرا ہاتھ ہلانے، ہلنے جلنے حتیٰ کہ اچھلنے کودنے سے شعر کو زیادہ با اثر بنانے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس طرز کی خالی خولی شاعری کچھ عرصہ پہلے تک تو منچلوں کا دل بہلانے کا کام کیا کرتی تھی لیکن اب بے سرو پا باتوں اور بازاری فقروں کی بدولت اسے مزید بے ہودہ اور گھٹیا بنایا جا رہا ہے۔ نئی مشاعرہ بازی نے پوری نسل کی حسِ مزاح تباہ کرنے کا پورا سامان فراہم کیا ہے۔ اب لوگوں کو مہذب باتوں پر مشکل سے ہنسی آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1920 کی دہائی میں وجود پانے والے ڈاڈا ازم کی "نفی”ہمارے فن کے باغیوں تک اب پہنچی ہے۔ ان میں جین آرپ، رچرڈ ہلس بیک، مارشل جینکو، ایمی ہننگز اور ٹرسٹن زارا کی روح چاہے نہ پہنچی ہو ان کے حصے کی جلا وطنی ضرور پہنچنی چاہیے۔
اس صورت حال کا ایک فایدہ ضرور ہوا ہے کہ اب مداریوں، مسخروں اور جگت بازوں کے لیے شاعر بننا آسان ہو گیا ہے ساتھ ہی سنجیدہ اور عظیم ادب کے نمائندہ شعرا اور ادبا کی شناخت شکوک وشبہات کا شکار ہو گئی ہے۔ اب کسی بھی مشاعرہ گاہ یا شعری نشست میں فیض، راشد، مجید امجد ، تصدق حسین خالد، میرا جی، اختر حسین جعفری یا وحید احمد کی نظمیں اور ثروت حسین، شکیب جلالی، ظفر اقبال، غلام محمد قاصر، اظہار الحق اور احمد مشتاق سے لے کر اختر عثمان تک کی غزلیں با آسانی موت کا سکوت طاری کر سکتی ہیں۔
بعض ناقدین نئی نسل اور Gen Z کو اس مسئلے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت کسی بھی زبان کی اعلیٰ شاعری دیکھ کر پڑھنے سے بھی قاصر ہے اس سے حظ اٹھانے یا thought provoking کے عمل سے گزرنا تو محال ہی ہے۔ شعر و ادب کا واحد مصرف مشاعرے رہ گئے ہیں اور ان میں بھی قیامت خیز داد دینے والوں کو سستے رومان اور بیہودہ باتوں کے سوا کوئی بات زندگی کی حقیقتوں سے قریب تر معلوم نہیں ہوتی۔ اب شاعری سوشل میڈیائی بازاروں میں سنائی اور لٹکائی جا رہی ہے جہاں ایک ویڈیو میں پیش کیا جانے والا متن املا کی درجنوں اغلاط سے بھرا ہوتا ہے۔
حال میں شعرا کا جو تعارف یا تصور بھی قائم کیا جا رہا ہو میں نئی نسل کے سامنے یہ بات بڑے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے استاد شعرا اور متقدمین ہرگز چھچھورے بیہودہ نہیں تھے۔
آخر میں غالب کے دو اشعار دیکھیے
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
تبصرے بند ہیں.