عدلیہ، ایگزیکٹو کشمکش

53

پاکستان میں جمہوریت کے امین سیاسی لوگ اصول پسندی کا پرچار تو بہت کرتے ہیں مگر کسی بھی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے اور ہمارے وہ ادارے جو قانون کے مطابق انصاف کے ذمہ دار ہیں وہ بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنا دور پورا کر کے ریٹائر ہو چکے ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں رکے نہیں باہر چلے گئے وہ جانتے تھے کہ ان کے کئے گئے فیصلے ان کے لئے کیا مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ وہاں بھی لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔انصاف کسی ریاست کے لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس میں ڈنڈی مارا جانا کسی صورت بھی جائز تصور نہیں کیا جاتا۔ ریاست میں جمہوریت اور سیاست کے درمیان ایک عجیب کشمکش نظر آ رہی ہے۔ یہ معاملہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیںبھارت میں بھی ایسی ہی کیفیت ہے، وہاں جب سے مودی برسرِ اقتدار آئے ہیں وہ ہندو دھرم کے احیا کے لئے کمر بستہ ہیں۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس طرزِ سیاست نے بھارت کو بھی کمزور ہی کیا ہے۔

اقتدار کا نشہ بڑا دلکش ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اقتدار کا نشہ اقتدار ختم ہو جانے کے بعد بھی نہیں اترتا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب ہی نہ ہو وہ ہر وقت برسرِ اقتدار رہیں یہی چیز سارے مسائل کی جڑ ہے اور انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ جمہوری روایات کو ایک طرف رکھ کر کسی طرح بھی بس اقتدار حاصل کر لیں اس کے لئے خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔مجھے مغلیہ دور کا ایک واقعہ یاد آگیا ، مغل خاندان کے پانچویں فرمانروا اور تاج محل کے تخلیق کار شاہ جہاں کے چاروں سپوت اقتدار کے لئے آپس میں دست و گریباں ہوئے تو ان چاروں میں آخری فتح اورنگ زیب عالمگیر کو حاصل ہوئی۔ مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے ہی اس نے پہلا ضروری کام یہ کیا بیمار باپ کو خود اسی کے تعمیر کردہ قلعے میں نظر بند کر دیا۔ قلعے میں بیٹھے بیٹھے سابق بادشاہ بڑی بور زندگی گزارنے لگے، اس بوریت سے تنگ آ کر انہوں نے اورنگزیب عالمگیر سے درخواست کی
کہ قلعہ میں بیٹھا رہتا ہوں لہٰذا وقت گزاری کے لئے کچھ بچے قلعے میں بھجوا دیا کرو میں انہیں پڑھا کر ہی اپنا وقت گزار لیا کروں گا۔ اس طرح میرا وقت کٹ جایا کرے گا اور بچوں کو بھی فائدہ ہو گا۔اپنے باپ کی جانب سے کی جانے والی اس درخواست کو سن کر اورنگزیب مسکرایا اور طنز کرتے ہوئے کہنے لگا ” خوئے سلطانی نہیں جاتی” یعنی کچھ اور نہیں تو تعمیلِ حکم کرنے والے چند طالب علم ہی سہی جو دورِ حکمرانی کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ پھر اس نے باپ کی یہ درخواست مسترد کر دی۔ ہمارے آج کے حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ چاہتے ہیں ہر وقت برسرِ اقتدار رہیں یا پھر ان کے اہلِ خانہ اس سے فیض یاب ہوں۔ اقتدار کا نشہ اقتدار ختم ہو جانے کے بعد بھی نہیں اترتا، یہی چیز نقصان پہنچا رہی ہے۔

اپنے اقتدار کو طول دینے اور اختیارات بڑھانے کے لئے حکمران بہت سے ترامیم کا سہارا بھی لے رہے ہیں، جس سے عدلیہ، ایگزیکٹو کشمکش جاری ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ کی موجودہ کشمکش کیا رخ اختیار کرتی ہے اور کیسے نتائج سامنے آتے ہیں؟ لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے مابین اختیارات کے معاملے میں زبردست کشمکش کی صورتحال ہے۔فی الحال اسے تصادم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس وقت پارلیمنٹ اپنے آئینی اختیارات بروئے کار لا رہی ہے اور عدلیہ کے احترام پر اصرار کرتے ہوئے اپنے لئے گنجائش بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بدحواسیوں کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل سے نہیں گزرا۔ غلام محمد کے زمانے ہی سے انتظامیہ نے عدلیہ پر اس طرح سے دباؤ پیدا کیا کہ اسکے بعد آئینی اور قانونی موشگافیوں کی گنجائش نہیں نکالی جا سکی۔ 1958ء میں ایگزیکٹو کو فوج کی طاقت دستیاب ہو گئی اور پھر کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب عدلیہ انصاف کی فراہمی کے عمل کو تبدیلی اور ارتقا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔حتیٰ کہ 1973ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد جمہوری حکومت کے دور میں بھی عدلیہ دباؤ کی حالت سے باہر نہیں نکل سکی۔

ذوالفقار علی بھٹو پر جو قتل کا مقدمہ چلایا گیا اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ عدلیہ طویل دباؤ سے نکلنے کی خاطر قانون کی پامالی پر اتر آئی اور ایسا فیصلہ دے دیا جس کے تحت ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ لیکن عالمی سطح پر وہ فیصلہ آج بھی متنازع ہے اور دنیا میں کوئی عدالت یا وکیل اس کی نظیر پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ضیاء الحق ان کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں اور پھر پرویز مشرف کی حکومت میں ججوں کے لئے حالات اچھے نہیں رہے، جن ججوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرنے سے گریز کیا انہیں گھر بھجوا دیا گیا۔ ضیاء الحق نے بھٹو کیس میں عدلیہ کو بری طرح بے دست و پا کر کے مرضی کا فیصلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو کا چیف جسٹس سے تنازع ہوا جس پر چیف جسٹس کو ایگزیکٹو کی طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر چڑھائی کر دی جو کہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ چیف جسٹس کو اپنی ہی عدالت کے اندر توہین آمیز سلوک کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔

عدلیہ پر دباؤ کی سب سے بڑی مثال اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط ہے جس کا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ اب ایک بار پھر حکومت نے 26 ویں ترمیم کر کے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔عدلیہ شروع سے ہی ایگزیکٹو کے دباؤ سے نکلنے کی خواہاں رہی ہے جو آزادی کے بعد ہی اس پر پڑنا شروع ہو گیا تھا اور وہ معمول کے حالات میں آئین و قانون کے ارتقائی عمل میں وہ حصہ نہیں لے سکی جو کہ عدلیہ کا حق ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کے مابین توازن اختیارات بڑا اہم مسئلہ ہوتا ہے جو ہمیشہ حکومتوں اور عدالتوں کی قانونی اور آئینی کشمکش میں نئی نئی شکلیں اختیار کرتا رہتا ہے۔ یہی وہ کشمکش ہے جس میں عدل و انصاف کا نظام ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں یہ عمل معمول کے مطابق نہیں ہو سکا۔ یہ عدم توازن ہمیں کہاں لے جائے گا؟ یہ سوال ہر ایک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.