پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے کسی بھی معاشرے میں انسانی قدریں جب دم توڑ رہی ہوں اور ملک کی سیاست فراڈ اورکاروبار تک ہی محدود ہو جائے تو ایسے میں سول بیورو کریسی کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دو نمبر سیاست، اقتدار اور لوٹ مار کی بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوئے۔ نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ سچائی لکھ رہا ہوں کہ بد قسمتی سے ایسی ہی کچھ صورتحال ہمارے پیارے ملک کی بھی ہے جو کہ پاکستان کی پیدائش سے لے کر آج دن تک چلی آرہی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں پاکستان خوشحال ہوتے ہوئے نظر ہی نہیں آرہا اور اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کو خوشحال ہونے دیا ہی نہیں جا رہا تو اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔
میں بطورِ صحافی شعبہ صحافت سے لگ بھگ 20 سال سے منسلک ہوں اور میرا زیادہ تر وقت لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی میں ہی گزرتا ہے۔ میں بطورِ شاگرد اپنے اللہ اور اس کے رسولؐ کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے پاکستان کی صحافت کے نامی گرامی صحافیوں، تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں اور لکھاریوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں داخل ہونے کے بعد اگر ہم زیرو پوائنٹ سے مُڑیں اور آب پارہ چوک کی طرف جائیں تو ہمیں دور سے ایک بہت ہی بڑی عمارت نظر آتی ہے جس پر ہمارے ملک کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس عمارت کے قریب پہنچیں تو ہمیں اس عمارت کے مین گیٹ سے لے کر کئی کلو میٹر تک اس عمارت کی دیوار کے اوپر لگی ہوئی بجلی کی تاریں نظر آتی ہیں اور عمارت کے گیٹ پر تعینات چاکو چوبند افواجِ پاکستان کے کمانڈو جوانوں کو دیکھتے ہی یہ احساس محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام جگہ نہیں ہے، بلکہ اس عمارت کا تعلق ریاستِ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق کسی بڑے ادارے سے ہو گا۔ آپ کا کبھی یہاں سے گزر بسر ہو تو آپ اس چیز کو بخوبی محسوس کریں گے کہ عمارت کے نزدیک سے گزرنے والے ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایسا کرنا پاکستان کے ان فوجی کمانڈوز کی مجبوری اور ذمہ داری ہے کیونکہ وہ عمارت پاکستان کی اور دنیا میں مانی جانے والی سب سے اہم انٹیلی جنس ایجنسی ISI کی عمارت ہے۔ جہاں پر ISI کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔
میں بطور دفاعی تجزیہ نگار اپنے کئی کالموں میں پہلے بھی ISI کے حوالے سے لکھ چکا ہوں۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیںنہ ہی ہم قرآن پاک کا مطالعہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ کرتے ہیں، نہ ہی ہم سیرت النبیؐ کا مطالعہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ کرتے ہیں اور کہنے کو ہم لوگ مسلمان ہیں۔ اب اگر میں بات کروں اپنے ملک کے حوالے سے تو نہ ہی ہمیں پاکستان کی تاریخ کا علم ہے، نہ ہی ہم آئین پاکستان کو پڑھتے اور جانتے ہیں، نہ ہی ہم تعزیراتِ پاکستا ن کو پڑھتے اور جانتے ہیں، بالکل اسی طرح ہمیں اپنے ملک کی سلامتی کے حوالے سے الف، ب کا بھی علم نہیں ہے۔ یہی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم لوگ اپنے ملک کی افواج سے محبت کرنے کی بجائے مُلکی غداروں اور جاہلوں کے کہنے پر افواجِ پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ISI کا قیام 1948ء میں اُس وقت عمل میں لایا گیا جب پاکستان کو بھارت کے ساتھ آزادی کے فوراً بعد مسئلہ کشمیر پر ایک محدود لڑی جانے والی جنگ سے دو چار ہونا پڑا۔ یہاں پر اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے دشمن ملک بھارت کی پوری کوشش تھی کہ وہ نہ صرف مقبوضۂ کشمیر بلکہ آزاد جموں کشمیر کو بھی حاصل کر لے۔ اُس وقت پاکستان کی تمام تر کوششیں تھیں کہ بھر پور طاقت لگا کر بھارت کو اُس کے مذموم عزائم سے روکا جائے۔ اس وجہ سے اور بہت ساری وجوہات کی بنا پر سال 1948ء میں حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان نے قومی سلامتی سے متعلق امور کو اور مُلکِ پاکستان کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نئے خفیہ ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کو آج پوری دنیا میں بہترین انٹیلی جنس ایجنسی مانا اور جانا جاتا ہے اور وہ ISI ہی ہے۔
آج ہمارے لیے یہ بات جاننا اور سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے کہ نہ صرف افواجِ پاکستان، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، سپیشل سروسز گروپ اس کے ساتھ ساتھ، انٹیلی جنس بیورو، پاکستان رینجرز،افواجِ پاکستان کا ادارہ ISPR ، وزارتِ دفاع، وزارتِ داخلہ اور بہت ساری ایسی انٹیلی جنس ایجنسی ہیں جن کے دن رات چوبیس گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے پاکستان، پاکستان کی سلامتی اور پاکستانی عوام شادو آباد ہیں۔ مجھے اکثرو بیشتر کچھ پڑھے لکھے اور بہت ہی زیادہ سمجھدار لوگ یہ سمجھانے کی بہت کوشش کرتے ہیں کہ میں افواجِ پاکستان اور پاکستان کی تمام خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیز، لاء اینڈ آرڈر کے تمام اداروں اور ملکی سلامتی کو برقرار رکھنے والے اداروں کے حق میں بہت زیادہ لکھتا اور بولتا ہوں۔مجھے اُن کی یہ بات سُن کر افسوس بھی ہوتا ہے مگر پھر بھی میں غصہ نہیں کرتا کیونکہ میں یہ بات جانتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک میں کام کرنے والے تمام خفیہ ادارے جو کہ پاکستان کی اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اگر وہ بھی پاکستانی جاہل عوام کی طرح مُلک اور قوم کے لیے قربانیاں دینا چھوڑ دیں تو پاکستان چند ہی منٹوں میں دنیاکے نقشے سے غائب ہو جائے گا۔ مگر میں پھر بھی اپنے سے عمر میں بڑے اور تجربات میں مجھ سے کئی زیادہ سینئر کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ آخر میں ایک بات جو حق اور سچ ہے لکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ میرا جینا اور مرنا افواجِ پاکستان اور پاکستان کی تمام خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے اُن جوانوں کے ساتھ ہے جو کہ عملی طور پر ریاستِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ جس میں بہت بڑا کردار ISI کا ہے۔ میری بطورِ پاکستانی شہری ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے مُلک پاکستان کی افواج اور مُلکِ پاکستان کو اپنی رحمتوں و برکتوں کے سائے میں رکھیں۔ کیونکہ افواجِ پاکستان ہیں تو ہی پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو ہی سب کچھ ہے نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور افواجِ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
تبصرے بند ہیں.