بیوروکریسی اچھی ہے یا بری؟

104

مجھے تو سمجھ نہیں آئی کہ سابق سیکرٹری محکمہ معدنیات پنجاب بابر امان کا قصور کیا تھا؟اور انہیں کیوں ٹرانسفر کیا گیا ہے؟ایک طرف پنجاب حکومت صوبے میں اچھا کام کرنے والے افسروں کی تحسین کر رہی ہے تو دوسری طرف انہیں کسی جرم کے بغیر سزائیں بھی دی جارہی ہیں۔ مملکت خداداد میں اگر چہ کوئی کل سیدھی دکھائی نہیں دیتی مگر انتظامی امور کے حوالے سے ہماری کیفیت کسی بنانا ریاست سے کم نہیں،چاروں جانب ابتری،بے اطمینانی،غیر یقینی کی صورتحال ،ریاست نے جس محکمہ اور افراد کو کو جو ڈیوٹی دی ،اکثریت اس کی انجام دہی میں کوتاہ اندیش ہے،جس کو جس جرم یا فعل کے روکنے کی ذمہ داری دی گئی وہ خود اس میں پوری طرح ملوث ہے،انتظامی امور کے طویل مشاہدہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اس کی بڑی وجہ صحیح پوسٹ کیلئے درست شخصیت کا انتخاب نہ ہونا بھی ہے،اقرباء پروری، پسند نا پسند کا عمل دخل ہے اور دوسری وجہ سیاسی اور حکومتی مداخلت ہے،ہر با اثر اور صاحب اثرو رسوخ اپنے علاقہ میں اپنے مرضی کے انتظامی افسر متعین کرانے کا خواہشمند ہے،انتظامی امور میں وزرائ،منتخب نمائندوں اور حکومتی پارٹی کے رہنمائوں کی مداخلت،مرضی کے فیصلے کرانے کی جستجو میں انتظامی افسر کو ریاست کے بجائے ذاتی ملازم سمجھ لیا جاتا ہے،اس روش سے کرپشن،من مانی،لاقانونیت کی راہ ہموار ہوتی رہی،جہاں حکومت کے اہم افراد کے سامنے کوئی انتظامی افسر قانون ضابطے کی بات کرے اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے ،جیسا کہ بابر امان کے ساتھ کیا گیا۔

دنیا بھر میں کمشنری نظام بڑی کامیابی سے ریاست،عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا ایک مضبوط پل تصور کیا جاتا ہے،کمشنر ڈویژن کا سربراہ جبکہ ڈپٹی کمشنر ضلع میں ریاست کی نمائندگی کرتا ہے،اس عہدہ کا مخفف ڈی سی تھا جو مشرف دور میں ڈی سی او(ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر) میں تبدیل ہو گیا،ڈپٹی کمشنر ضلع میں چیف ایڈمنسٹریٹر ،لینڈ ریونیو کلکٹر،اور کسی ڈویڑن کا ذیلی انتظامی یونٹ ہوتا ہے،ماضی قریب میں اسے ضلعی مجسٹریٹ کا اختیار بھی حاصل تھا،مجسٹریٹ اسی کی ماتحتی میں خد مات انجام دیتے تھے،محکمہ پولیس براہ راست ڈپٹی کمشنر کو جوابدہ تھا،تحصیلوں میں ڈپٹی کمشنر کے نمائندے یا ما تحت اسسٹنٹ کمشنر ہوتے جن کو وہی اختیار تحصیل کی سطح تک حاصل ہوتا جو ڈپٹی کمشنر کو ضلع میں حاصل ہے،میونسپل کارپوریشن کا انتظامی سربراہ بھی ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا ،یوں میونسپلٹی کے ماتحت تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی اسی کی نگرانی میں کام کرتے تھے،اس طرح ضلع میں ایک مکمل حکومت بااختیار تھی جو ریاست کے اندر ریاست نہیں بلکہ ریاست کے ماتحت ادارہ ہوتا تھا ،مگر بیووکریسی کی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں پہلے مجسٹریسی نظام کا خاتمہ کیا گیا،پھر محکمہ پولیس کو اصلاحات کے نام پر ڈپٹی کمشنر کی ماتحتی سے نکال کر بے لگام کر دیا گیا،نتیجے میں نگرانی کا عدالتی نظام ختم ہو گیا،گلی محلوں میں ہونے والے جرائم بے قابو ہو گئے،عدالتوں پر کام کا بوجھ بڑھ گیا،مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،منافع خوری کو کنٹرول کرنے والا کوئی ادارہ نہ بچا،ڈپٹی کمشنر سے بد امنی کی صورت میں دفعہ 144لگانے کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا جو اب طویل عرصے بعد اسے دوبارہ دینا پڑا ہے،کسی نا پسندیدہ فرد کی نظر بندی کا سمیت یہ اختیار محکمہ داخلہ کے سپرد کر دیا گیا،نتیجے میں ایک کھوکھلا اور ڈھیلا ڈھالا ضلعی نظام وجود میں آیا،جو اپنے ہی ضلع میں کسی ایمر جنسی میں بھی کسی اقدام کیلئے دوسرے محکموں کا محتاج ہے،نتیجے میں امن و امان کی صورتحال کشیدہ،جرائم بے قابو اور پولیس مظالم ہر حد کو پار کر گئے،نچلی سطح پر نگرانی اور فوری انصاف کا سلسلہ بھی تھم گیا۔
ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع میں سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود کمشنر کو جوابدہ ہوتا،سالانہ خفیہ رپورٹ اس کی کارکردگی کا آئینہ ہوتی،مگر سیاسی حکومتوں نے اس عہدے کو اپنا ماتحت کر لیا،خفیہ کارکردگی رپورٹ کا نظام بھی کمزور ہو گیا،ماضی میں ہم دیکھتے کہ جہاں جلسے جلوسوں یا سیاسی انارکی کے سبب حالات خراب ہوتے بطور ڈسڑکٹ جج ڈپٹی کمشنر فوری اصلاح احوال کیلئے اقدام کرتے،مہنگائی،منافع خوری،ذخیرہ اندوزی،ٹیکس چوری، غیر قانونی افعال پر ڈپٹی کمشر بروئے کار آتے،مجسٹریٹ بازاروں میں گھومتے ،انتظامی مجسٹریٹ صاحبان شہر میں گھوم پھر کر خود حالات کا جائزہ لیتے،جوڈیشل مجسٹریٹ معمولی جرائم کے مجرموں کو فوری سزا دیتے،جس سے سٹریٹ کرائم کافی حد تک کنٹرول میں تھے،احتجاج ،دھرنے کی صورت میں مظاہرین سے مذاکرات کر کے مسلہ کا حل تلاش کیا جاتا،سیاستدانوں سے بھی روابط رہتے،یوں ڈپٹی کمشنر ضلع کی حد تک حکومت کی بہترین انداز میں نمائندگی کیا کرتے تھے،نتیجے میں شہری سکھ کی نیند سوتے،پولیس گردی کا حل بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس تھا جو فوری سزائیں دیکر مظلوم کو انصاف دیتے جس سے عام شہری کا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتماد ڈانواں ڈول نہ ہوا۔

اب اس نظام کی اصلاح اور اسے بہتر بنانے کی بجائے اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر میدان میں اتار دیا گیا اور ان سے کارکردگی کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے،جب کسی عہدیدار کے ہاتھ بندھے ہوں تو وہ کسی مجرم کا ہاتھ کیسے روک سکتا ہے ؟یہ بات ارباب اختیار کے سمجھنے کی ہے۔ سیاسی حکومتوں میں اگر چہ انتظامی حوالے سے تجربات ہی کئے جاتے رہے،ایک تجربے کی ناکامی کے بعد دوسرا ،مشرف کے ضلعی نظام کا حشر سب کے سامنے ہے اگر چہ اس میں کچھ خوبیاں بھی تھیں،مگر مجموعی اعتبار سے ایک ناقص انتظام تھا،بلکہ انتقامی نظام تھا،کمشنری نظام کو بھی ناکام تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ،اس کے باوجود اگر کچھ ڈپٹی کمشنر بہتر طور پر ڈیلیور کر رہے ہیں،حکومت اور عوام کے درمیان پل ہیں،قانون کی عملداری کے امین ہیں،ریاستی مفاد کیساتھ شہریوں کے مفاد کے بھی نگہبان ہیں،امن و امان کی بحالی کے بھی ذمہ دار ہیں،مگر نہ کوئی عدالتی اختیار ان کو حاصل ہے اور نہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے کوئی فورس ان کے ماتحت ہے،مجسٹریسی نظام کو لپیٹ دیا گیا اور محکمہ پولیس کو مادر پدر آزاد کر دیا گیا،وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ایک خوش آئند اور قابل تقلید روائت کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے بہترین کاکردگی پر پانچ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان کو سرٹیفکیٹ آف میرٹ سے نوازا،بہاولنگر کے ڈپٹی کمشنر ذوالفقار بھون پہلے ،ڈپٹی کمشنر مری ظہیر الحسن شیرازی دوسرے ،میانوالی کے خالدجاوید گورایہ تیسرے ،لیہ کی امیرا بیدار چوتھے اور پاکپتن کی سعدیہ مہر پانچویں نمبر پر بہترین کارکردگی کے حامل ٹھہرے۔
اچھی کارکردگی پر اعزاز،انعام اور اکرام سے کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے،لیکن اور بھی بہت سے افسر ہیں جن کی کارکردگی مثالی ہے،بہت سے قابل،تجربہ کار،دیانتدار،اہل افسر سیاسی وابستگی کے الزام یا کسی حکومتی شخصیت کے نزدیک نا پسندیدہ ہونے کی وجہ سے کھڈے لائین لگے ہوئے ہیں،ان کی لیاقت اور فراست سے ملک و قوم کو مستفید ہونے سے محروم کرنا دراصل ریاست سے زیادتی ہے،اس لئے بہتر ہو گا ان کی اہلیت اور قابلیت سے بھی فائدہ اٹھایا جائے۔

تبصرے بند ہیں.