27 ویں ترمیم، وکلا الیکشن، دراڑیں

50

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پُر اسرار خاموشی، سیانے اسے کسی خوفناک طوفان کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ 26 ویں ترامیم کے سقم دور کرنے کے لیے 27 ویں ترمیم ناگزیر لیکن فی الحال سارے وزیر مشیر انکاری، آئینی بینچ بنانے کے لیے 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر دونوں بڑی اتحادی جماعتوں میں اختلافات، پی ٹی آئی نے دونوں نمائندے دے دئیے۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو موقع ہی نہیں دیا۔ بلاول بھٹو اور فاروق ایچ نائیک کا اعلان کر دیا کہ کمیشن میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بالحاظ عہدہ شامل ہیں۔ ن لیگ ڈھیلے ڈھالے مزاج کی جماعت پہلے حضرت مولانا نے دوڑائے رکھا اور ایک ناکارہ اور بے ضرر سی ترمیم منظور کرا لی 27 ویں ترمیم کا سوچا تو پیپلز پارٹی آڑے آ گئی۔ نیتیں صحیح نہیں ہیں سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر، جوڈیشل کمیشن میں تاخیر سے سہولت کاروں کو اپنی صفیں درست کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بدستور اپنی روش پر قائم، علی امین گنڈا پور کی قیادت میں دارالحکومت پر ہلہ بولنے والے کم و بیش 80 ملزموں کی ضمانتوں پر رہائی۔ پشاور پہنچے تو گنڈا پور نے حملہ آوروں پر پھول برسائے۔ 10 ہزار فی کس انعام دیا اور سب کو پروموشن سے نوازا۔ اس کے ساتھ ہی ملک بند کرنے کی دھمکی دے دی۔ فائر بریگیڈ کی کمی کے باعث حیات آباد جلتا ہے جل جائے۔ پُراسرار کردار کے حامل وزیر اعلیٰ اپنے 80 سرکاری کمانڈوز کے ہمراہ ملک کو نقصان پہنچانے سے باز نہیںآئیں گے۔ مگر شومئی قسمت خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار نہیں، دراڑیں، اختلافات، پارٹی تتر بتر خان کے کنٹرول سے باہر اڈیالہ جیل میں خان سے ملاقات کے دوران باہم شیر و شکر، باہر آتے ہی دست بگریباں، پارٹی کئی گروپوں میں بٹ گئی، جیل کا دروازہ کھلے گا نہ خان باہر آئے گا نہ ہی پارٹی متحد ہو گی۔ بشریٰ بی بی کو کس خاص مقصد کے لیے جیل سے رہائی ملی تھی وہ چار دن خیبر پختونخوا میں چین سے نہ گزار سکیں۔ پارٹی اجلاسوں میں مصروف رہیں۔ اختلافات ہی سامنے آئے اتنے لمبے ’’اجلاس‘‘ رات 11 بجے سے صبح 3 بجے تک ’’اتحاد‘‘ کے لیے کوشاں، شنید ہے کہ مبینہ طور پر گنڈا پور کی اہلیہ نے انیکسی خالی کرا لی۔ ازدواجی زندگی عزیز، بی بی اپنے گھر جا کر رہو۔ بی بی چپکے سے زمان پارک آ گئیں۔ ادارے ان کی سیاسی و جادوئی مصروفیات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یوتھیے ’’ہم نہ باز آئیں گے محبت سے‘‘ گنگناتے ہوئے خان کی رہائی کے لیے لمبی چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح رہائی کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع۔ اچھے بھلے سمجھدار وکیل لطیف کھوسہ پی ٹی آئی میں جا کر ناقابل فہم بلکہ ناقابل عمل دعوے کرنے لگے ’’جو تیری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا‘‘ کہنے لگے ٹرمپ امریکی صدر بنتے ہی 15 نومبر تک خان کو جیل سے باہر نکال لیں گے۔ علیمہ باجی ناراض ہوئیں کہا کیا ٹرمپ ہمارے ابو ہیں کیا ہم غلام ہیں۔ لطیف کھوسہ سیانے بیانے آئین و قانون کے ماہر، امریکی آئین بھی پڑھا ہو گا۔ جس کے مطابق الیکشن 5 نومبر کو، آئندہ صدر منتخب کر لیا جاتا ہے لیکن حلف برداری 20 جنوری کو ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی نو منتخب صدر اپنی پالیسیاں نافذ کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ ٹرمپ 15 نومبر کو خان کی رہائی کے احکامات کیسے دے گا۔ ٹرمپ کے ترجمان ساجد تارڑ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں واضح کیا کہ پی ٹی آئی والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ وہ خواب دیکھ رہے ہیں امریکا ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں کیوں مداخلت کرے گا۔ زلفی بخاری نے لمبی چھلانگ لگائی (لمبی رقم بھی پکڑی ہو گی) امریکی کانگریس کے ہم جنس پرست ارکان سے خان کی رہائی کے خط لکھوایا۔ ’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘ ان میں کٹڑ یہودی اور بھارت نواز ارکان بھی شامل تھے جواب میں 160 پاکستانی ارکان پارلیمنٹ نے جوابی خط لکھ مارا۔ بڑی فصیح و بلیغ انگریزی میں امریکی ارکان سے کہا کہ لاس اینجلس کی عدالت کے فیصلے کے باوجود خان ٹیریان کی ولدیت قبول کرنے سے انکاری، دیگر مقدمات سیاسی نہیں فوجداری امریکی ایسے شخص کی رہائی کی سفارش کیوں کر رہے ہیں جو انڈر ٹرائل قیدی ہے اور جس پر 190 ملین پائونڈ کرپشن کیس کی سماعت تقریباً مکمل ہو چکی ہے لیکن اس کے وکیل 35 سماعتوں سے گواہ پر جرح مکمل نہیں کر پا رہے۔ سینئر ترین وکیل بلکہ کئی وکیلوں کو جج بنانے والے حامد خان نے حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی اعلان بھی کر چکے تھے۔ لیکن بد قسمتی یا حکومت کی خوش قسمتی سے سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں وکلا کی اکثریت نے موصوف کے گروپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گزشتہ منگل کو بار کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر گروپ (انڈی پینڈنٹ) کے میاں رئوف عطا ملک بھر سے 1270 ووٹ لے کر صدر منتخب ہو گئے جبکہ حامد خان گروپ (پروفیشنل) کے منیر کاکڑ 1155 ووٹ لے سکے انہیں صرف کراچی اور کوئٹہ سے برتری ملی۔ جبکہ میاں رئوف عطا کے پی کے سمیت 9 شہروں میں کامیاب رہے۔ خان کی رہائی کے لیے وکلا کی تحریک چلانے کی خواہش بھی دم توڑ گئی۔ بالائے ستم شیر افضل مروت نے 21 ارکان کے فاروڈ بلاک کی نوید سنا کر رات کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ آئندہ دو ماہ اہم ہیں۔ سہولت کار ابھی تک ایڈونچر ازم سے باز نہیں آئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تمام تر دبائو کے باوجود آئینی اور قانون کے مطابق فیصلے دئیے اور با عزت طور پر ریٹائر ہو گئے۔ لندن میں پندرہ سولہ یوتھیا وارئرز شایان اس کی والدہ صدف، عائشہ فہیم اور ان کے ساتھیوں نے قاضی صاحب کی گاڑی پر حملہ کیا۔ اپنی تربیت کے مطابق گندی گالیاں دیں۔ اظہر جاوید کے مطابق ریٹائرڈ جسٹس برطانیہ کے علاوہ پاکستانی ہائی کمیشن کے بھی مہمان تھے پھر سکیورٹی گیپ کیوں رہا؟ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ہدایت کے مطابق ایف آئی نے 28 افراد کی نشاندہی کی جبکہ نادرا نے 23 افراد کی شناخت کر لی ہے کہا جا رہا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ اور شہریت منسوخ کی جائے گی، انہیں کیا فرق پڑے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ن لیگ اور دیگر جماعتوں پر مشتمل متحارب گروپ بنا کر ان مخبوط الحواس زومبیز کا مقابلہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 16 سے 25 کرنے کا بل پیش نہ کیا جا سکا۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے علاوہ پی پی کے بھی تحفظات تھے تاہم سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے اس کی منظوری دے دی تازہ خبر سنتے جائیے چار ڈیل ہونے جا رہی تھیں۔ تین ہو گئیں۔ گنڈا پور، بشریٰ بی بی اور خان کی بہنوں کو سہولتیں مل گئیں جنہوں نے جو سمجھانا تھا سمجھا دیا۔ عمل پیرا رہیں تو سکھ چین سے زندگی گزاریں گی، چوتھی ڈیل خان کی رہائی کے بارے میں تھی جو ناکام ہوئی۔ اس ناکامی پر خان کو چپ لگ گئی۔ دو سماعتوں پر انہوں نے صحافیوں سے بھی بات نہیں کی انہوں نے پے در پے غلطیوں سے پارٹی کے بھی بخیے ادھیڑ دئیے ہیں خبر یہ ہے کہ کوئی انہیں اقتدار میں نہیں آنے دے گا۔

تبصرے بند ہیں.