لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی گاڑی پرپی ٹی آئی بلوائیوں کاحملہ دیکھ کرہمیں اپنے پیرخالداورپچپن کے دن یادآنے لگے ہیں۔پیرخالدیہ ہمارے قریبی رشتہ دارہونے کے ساتھ بچپن کے دوست بھی ہیں۔ہم بچپن میں گولی ڈنڈا،آنکھ مچولی اوربنٹے کھیلنے کے ساتھ کرکٹ بھی ایک ساتھ کھیلاکرتے تھے۔اس وقت گاؤں میں گراؤنڈتو نہیں تھے اس لئے موسم خزاں کے اثرات شروع ہونے سے پہلے جب لوگ چاول کی فصل کاٹ لیتے اور کھیت ہرقسم کی فصل سے خالی ہوجاتے توہم بیٹ اورگینداٹھاکرکرکٹ کے جنون میںپھرکھیتوں میں ڈیرے ڈال لیتے۔کرکٹ کھیلنے کے چکرمیں دنوں کے ساتھ پھرہماری اکثر شامیں بھی انہی گراؤنڈنماکھیتوں میں گزر جایا کرتی تھیں۔ پیر خالد تو اب بڑے شریف،مہذب اورانصاف پسندہوگئے ہیں لیکن پچپن میں یہ ایسے نہیں تھے یہ تو کپتان کے کھلاڑیوں سے بھی دوقدم آگے تھے۔جب بھی ہم میچ لگاتے توپیرصاحب مخالف ٹیم میں نکل آتے۔پیرصاحب پھرمیچ کے دوران وہی کام کرتے جوکام کپتان اوراس کے کھلاڑی پچھلے نودس سال سے اس ملک کی سیاست میں کر رہے ہیں۔ پیر خالدجب بھی آؤٹ ہوتے تویہ پیٹسمین کے ساتھ فوراًایمپائربن کرنہ صرف نوبال اورناٹ آؤٹ کانعرہ لگاتے بلکہ یہ فوری طورپر وکٹیں بھی اکھاڑکر ساتھ لے جاتے ۔اسے کلیئرکٹ کلین بولڈہونے کے ساتھ اپنے خلاف ہرفیصلہ غلط نظرآتا۔یہ تین گیندوں پرمسلسل اوپرنیچے بھی اگر کلین بولڈہوتے توبھی یہ آؤٹ کوتسلیم کرنے کے بجائے باؤلر اورگیندکوغلط کہہ کربرابھلاکہناشروع کردیتے۔وہی حال کپتان اورکھلاڑیوں کاہے۔سیاست میں ان کے بال سفیداوردانت گرگئے لیکن ان کی بچوں والی حرکتوں اورعادتوں میں ذرہ بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔سانحہ نومئی کے بعدجوکچھ ان کے ساتھ ہوا، ایسااگرکسی اورکے ساتھ ہوتاتووہ سالوں اورمہینوں نہیں دنوں اورمنٹوں میں بدل جاتے لیکن ایک یہ کپتان اورکھلاڑی ہیں کہ یہ دھکوں پردھکے کھانے سے بھی ٹھیک نہیں ہورہے۔شرم حیااورعزت وشرافت بھی آخرکوئی شے ہے۔سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلے والاایک فیصلہ کیادیاکہ کپتان اور کھلاڑی اس کے دشمن ہی بن گئے حالانکہ وہ فیصلہ قاضی صاحب نے کوئی اکیلے نہیں دیاوہ باقاعدہ ایک بینچ نے دیااورمزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف سے بلے کانشان توالیکشن کمیشن نے اس فیصلے سے بھی پہلے ہی واپس لے لیاتھااس طرح کے فیصلوں پراگرججز،لیڈرز،بیوروکریٹس اورسیاسی شخصیات کے خلاف پتھراورڈنڈے اٹھا کر چوکوں، چوراہوں اور باہر کے ملکوں میں تماشا لگانا ہے تو پھر اس قسم کے تماشوں، انصاف اورایسی عدالت لگانے کے سب سے زیادہ حقداروہ ججز،وہ لیڈرز،وہ بیوروکریٹس اوروہ سیاسی لوگ ہیں جنہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف پی ٹی آئی کی سہولت کاری وتعاون برداری کرکے اس ملک میں تباہی وبربادی کی بنیادرکھی۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ایک چھوٹے سے فیصلے پرآسمان سرپراٹھانے اور شرم،حیاوتمیزبھولنے والے کیاپانامہ کے تاریخی فیصلے دینے والوں کوبھول گئے ہیں۔؟اس طرح کے فیصلوں پرمنصفوں کودنیاکے سامنے تماشا بنانا اگر انصاف اورثواب ہے تو پھر اس انصاف اورثواب کے سب سے زیادہ حقدارتووہ بابارحمتے اوروہ سب زحمتے ہیں جنہوں نے عدلیہ میں گاڈفادر اور گڈٹوسی یوکے الفاظ اورپسندوناپسندکانیانظام متعارف کرکے اس ملک سے انصاف اورغیرجانبداری کاجنازہ نکالا۔کیاجسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے پہلے والے ججزنے پانامہ سمیت جوسیاسی فیصلے دیئے وہ سب ٹھیک اورانصاف کے عین مطابق تھے۔۔؟میاں نوازشریف اورمسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں، لیڈروں اورسیاستدانوں کے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے اگر ٹھیک اورانصاف پرمبنی تھے توپھرانہی عدالتوں سے سابق وزیراعظم عمران خان،ان کے کھلاڑیوں اور پارٹی کے خلاف ہونے والے فیصلے کیسے غلط ہو گئے۔؟ دوسروں کی واری پر تو یوتھیے کہتے تھے کہ عدالت اور ججز آئین، قانون اورکیس دیکھ کرفیصلے کرتے ہیں پھر جب اپنی باری آئی تواسی آئین اورقانون کوتسلیم کرنے کے بجائے کپتان کے کھلاڑیوں اورجاہل یوتھیوں نے عدالتی فیصلوں پر چیخنا اور چلاناشروع کر دیا۔ کیایہ چیخنا اور چلانان لیگ اور دیگر پارٹیوں کے کارکنوں ورہنماؤں کونہیں آتا۔؟ کیا نوازشریف کے دیوانے اورن لیگ کے پروانے اپنے قائد اور پارٹی کیخلاف فیصلے دینے والے ججزکاپاکستان اور لندن میں انڈوں اور ٹماٹروں سے استقبال نہیں کرسکتے تھے۔؟عدالتوں سے حق اور مخالفت دونوں میں فیصلے آتے رہتے ہیں۔ایک دوفیصلے خلاف آنے کایہ مطلب نہیں کہ آپ ہاتھوں میں پتھراورڈنڈے اٹھاکرلندن کی شاہراہوں پر معززججزاورعدالتوں کے خلاف اپنی عدالت لگاتے پھریں۔ یوتھیوں نے توسیاست کے نام پرپہلے ہی ملک کوتماش گاہ اورتجربہ گاہ بنادیاتھااب انہوں نے عالمی سطح پرباہرکی دنیا میں بھی ملک وقوم کوتماشابناناشروع کردیاہے۔خیال تھاکہ سانحہ نومئی سے یہ سبق سیکھ کرراہ راست پرآجائیں گے مگرافسوس اب بھی سیاست کے بجائے یہ خباثت میں روزآگے بڑھتے جارہے ہیں۔ان کے ہاں آج بھی ہروہ شخص اورہروہ کام جوان کے معیار،منشاء اورمرضی کے مطابق نہ ہووہ غلط ہے۔ انہیں مرضی کی عدالت،من پسندفیصلے اورجان نثارججز چاہئیں۔ آئین، قانون، اخلاق، شرافت اورانصاف سے نہ پہلے ان کاکوئی تعلق تھااورنہ اب ان کاکوئی لینا دینا ہے۔ نہ صرف سابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بلکہ ہروہ شخص جوان کے معیار اور توقعات پرپورانہیں اترے گایہ اس کے ساتھ ایساہی سلوک کریں گے جوانہوں نے لندن میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ساتھ کیا۔ان کے شرسے نہ پہلے کوئی بچا اور نہ اب کوئی بچ رہا ہے۔ ہروہ شخص جوان کے خلاف کوئی فیصلہ دے گایاان کے شراورفسادکوبرابھلاکہے گایہ اس کے ساتھ یہی سلوک کریں گے جوانہوں نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اوردیگرکے ساتھ کیا۔پہلے انہوں نے سعودی عرب میں ملک وقوم کوتماشااب یہ لند پہنچ گئے ۔ان کے ہاتھ اورقدم نہ روکے گئے توکل کویہ چین اوربھارت بھی پہنچ کرملک وقوم کواسی طرح تماشابنانے سے دریغ نہیں کریں گے۔سیاست اپنی جگہ لیکن شرافت اورعزت بھی کوئی چیز ہے۔ جولوگ اپنی سیاست کے لئے دوسروں کی شرافت کالحاظ اورملک وقوم کی عزت کابھی خیال نہ کریں ایسے لوگوں کوپھرسیاست کرنے کابھی کوئی حق نہیں۔ وقت آگیاہے کہ سیاست اورشرافت سے نابلدان یوتھیوں کاکوئی خاص بندوبست کیاجائے نہیں تویہ ملک وقوم کواسی طرح دنیاکے سامنے تماشابناتے رہیں گے۔
تبصرے بند ہیں.