وزیر اعظم آزاد کشمیر کو توہین عدالت پر ہائیکورٹ نے نا اہل قرار دے دیا ہے،پاکستان میں توہین عدالت سے بات بہت آگے نکل چکی اور اب جج صاحبان پر تنقید کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں اور ستم یہ کہ اس نازک حساس صورتحال میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی رائے بھی منقسم ہے۔ایسی صورت میں جب عوام،سیاست اور حکومت سے قطعی مایوس،سیاستدان عوام کے مسائل حل کر نے میں ناکام ہو چکے ہوں اعلیٰ عدلیہ ہی عوام کی آخری امید اور ان کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے،مگر انسانی حقوق کے حوالے سے معزز جج حضرات کی رائے بھی تقسیم ہو گئی تو عوام کا پرسان حال کون ہوگا؟ملک آج جس گھمبیر اور پیچیدہ مسائل و مشکلات کا شکار ہے اس صورتحال میں اتحاد یکجہتی کی بہت ضرورت ہے،قومی اور ملکی مسائل کو سیاسی قیادت مل کر ہی حل کر سکتی ہے مگر یہاں ہر ایک کا اپنا قبلہ، اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، اپنے سیاسی،ذاتی اور پارٹی مفاد کے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے سیاسی قیادت عاری ہے اور اس کھینچا تانی میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو بھی غیر محسوس انداز سے شامل کر کے اس اہم ترین ادارہ کو تقسیم کیا جارہا ہے،حد یہ کہ چیف جسٹس پاکستان کو ہی بے اختیار کرنے کی پارلیمنٹ کے فلور سے مسلسل کوشش ہو رہی ہے،اس کوشش کو تقویت جج صاحبان کی جانب سے مختلف آراء نے بھی دی۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو معیشت کی سانس اکھڑ رہی تھی،اگر چہ مزید قرض کی آکسیجن سے اس کے تنفس کو اب تک کسی نہ کسی طرح بحال رکھا گیا ہے مگر ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی سعی بیکار میں حکومت نے سیاسی پٹارا کھول دیا،پنجاب کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90روز میں الیکشن کے آئینی تقاضے سے انحراف نے آئینی بحران پیدا کر دیا،حکومت کسی نہ کسی طرح مدت اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے،پنجاب اور کے پی کے میں فوری الیکشن پرآمادہ نہیں،اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی پروا ہ نہیں کی جارہی اور الیکشن کمیشن کو فنڈز،سکیورٹی،پولنگ عملہ دینے سے دانستہ گریز کیا جا رہا ہے،نتیجے میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے اور کہا ہے کہ ایسی صورت میں ہم کیسے الیکشن کرائیں؟آصف زرداری نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ اپوزیشن یعنی عمران خان سے مذاکرات کریں اور اس کیلئے شرائط نہ رکھیں،جبکہ تحریک انصاف اگر پنجاب اور کے پی کے میں فوری الیکشن پر مصر ہے تو حکومت خاص طور پر ن لیگ اکتوبر میں الیکشن کرانے پر بضد ہے،دونوں اپنے اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں،فریقین کی خواہش ہے کہ مخالف فریق اپنے مطالبے سے پسپائی اختیار کرے اور اس کی بات مانی جائے،ایسی صورت میں مفاہمت کا تصور کرنا حماقت کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران جلد ختم ہونے والا نہیں، موجودہ حکومت بھٹو، شریف اور مولانا کے بااثر خاندانوں پر مشتمل ہے،دوسری جانب عوام عمران خان کی شخصیت کے کرشمے میں مسحور ہیں اور ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،مقبولیت کے اس عروج کے باوجود عمران خان کے پاس ریاست سازی کے فن کی کمی ہے، ان کے قریبی ساتھی اسے نرمی سے پیش کرنے کے لئے بھی اتنے ہی نادان ہیں،وہ ہجوم کو اکٹھا کرنے میں ماہر ہیں مگر پراپیگنڈہ میں ان کو اور ان کی ٹیم کو مہارت حاصل نہیں جیسے ن لیگ والے کسی بات کو پکڑ کے اس کے بخئے ادھیڑتے ہیں تحریک انصاف اس میدان میں طفل مکتب بھی نہیں، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت کے درمیان جاری کشمکش ملکی سیاست میں نظام کی خامیوں کا شکار ہے،سیاسی بے اعتدالیوں کی وجہ سے ملک میں ہائبرڈ سسٹم کو رواج ملا ہے ہر کوئی پلک جھپکتے میں اپنی مانگ کے پورا ہونے کا خواہشمند ہے،اس صورتحال نے جمہوریت کو جڑیں پکڑنے کی حوصلہ شکنی کی، اس لئے سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے منشور پر عمل کرنے کے لئے اعتماد کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں سیاسی قائدین میں قومی سلامتی کے مسائل پر بحث کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا غیر فطری اتحادمیثاق جمہوریت کا نہیں خوف کانتیجہ ہے،دونوں نے طویل مدت ایک دوسرے سے سینگ پھنسا کر دیکھ لیا نتیجہ تباہی اور ذلت،عمران خان نے سیاست میں آتے ہی دونوں کو نشانہ مشق بنایا اور اقتدار میں آنے کے بعد احتساب کا کوڑا برسایا تو دونوں کو احساس ہوا کہ ان کے آپس کی لڑائی میں تیسرا فریق بازی لے گیا یوں دونوں متحد ہو گئے،ورنہ میثاق جمہوریت کے باوجوداقتدار میں آنے کے بعد دونوں ایک دوسرے کے لتے لیتے رہے،یہی سوچ اگر قومی معاملات میں بھی اختیار کی جائے اور سیاسی اختلافات سے ہونے والی ملک و قوم کی تباہی و بربادی کے بارے میں سوچا جائے تو شائد سب سیاستدان مذاکرات کی میز پر مل بیٹھیں اور کوئی درمیانی راستہ نکال لیں،”میں نہ مانوں“کی رٹ سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں،ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اور قوم کی جو درگت بن رہی ہے اس میں تمام سیاسی قوتوں کا ذاتی،سیاسی،پارٹی مفادات کو تج کر ایک پلیٹ فارم پرآنا ناگزیر ہو چکا ہے،الجھن انتخابات کے حوالے سے ہے تو اسے مل بیٹھ کے سلجھایا جا سکتا ہے،لیکن اس کیلئے عمران خان کو فوری اور پی ڈی ایم کو ایک ساتھ وفاق اور صوبوں میں الیکشن کی ضد کو چھوڑنا ہو گا،90روز کی آئینی شرط کو تو اب پورا کرنا ممکن ہی نہیں رہا،جب تاخیر ہو ہی چکی تو چند ہفتے مزید اوپر نیچے کرنے سے بھی کوئی طوفان نہیں آئے گا۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے مستعفیٰ ہونے کے بعد برطانیہ میں افراتفری نہیں دیکھی گئی،انتقال اقتدار کا مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پایا، ہنگامے نہ جلسے جلوس نہ سیاسی بکھیڑوں کو عدالت میں حل کرنے کی سعی، ہمارے سیاستدان آپسی اختلافات کوپہلے عدالتوں میں لے جاتے ہیں پھر جس کیخلاف فیصلہ آجائے وہ عدالتوں پر برسنا شروع ہو جا تا ہے،یہ تو جج صاحبان کا ظرف وسیع ہے کہ وہ تنقید کو سن کر برداشت کر لیتے ہیں اگر توہین عدالت لگانے کا سلسلہ شروع کیا جائے جیسے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کیساتھ ہوا تو پھر سیاست کیلئے کوئی اہل نہیں رہے گا،عدالت نے صرف فیصلہ دینا ہوتا ہے اس پر عملدرآمد کرانا حکومت کاآئینی فرض ہے،عدالت کے پاس فیصلوں پر عمل کرانے کیلئے ڈنڈا ہے نہ کوئی فورس،اس نازک صورتحال میں طاقتور کو ہی مداخلت کرنا ہو گی،فوج کا خود کو حکومت اور سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ قابل تحسین ہے مگر جب قومی ایشوز پر اتفاق رائے نہ ہو تو فوج قومی فریضہ سمجھ کر سب کو ایک میز پر لائے،اگر اتفاق رائے نہ ہو تو ایک بار پھر عدلیہ سے رجوع کیا جائے اور فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری فوج لے ورنہ سیاست اور سیاستدان ملک کو تباہ اور قوم کو بدحال کر کے چھوڑیں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.