سندھ حکومت کا پوزیشنز لینے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ دینے کا اعلان

کراچی: صوبائی حکومت نے تعلیم کے میدان میں اچھی پوزیشن لینے والے طلبہ کو لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سعید غنی کا کہنا ہے کہ سندھ بھر میں جو بچے اعلیٰ سطح پر پوزیشنز لیں گے انہیں مرحلہ وار لیپ ٹاپ دیں گے۔ داخلہ اور امتحانات میرٹ پر کرنا چاہتے ہیں۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں عام طور پر شہری استاد نہیں بنتے۔ ہم نے اہم اقدام اٹھاتے ہوئے اساتذہ کی بھرتیوں کی شرط میں بی اے اور ایم اے کی شرط ختم کر دی ہے۔

سعید غنی نے بتایا کہ ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہر سال 3، 4 ہزار اساتذہ فراہم کرتا ہے، اتنی تعداد میں ہی اساتذہ ریٹائرڈ بھی ہوتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قابلیت کے حامل اساتذہ بھرتی ہوں جو بچوں کو بہترین انسان بنائیں۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ایک شخص جو استاد بننے کیلئے ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوگا، اس شخص کا تمام خرچ سندھ حکومت ادا کرے گی، وہ شخص ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے پڑھ کر امتحان دے گا، جب وہ امتحان پاس کر لے گا تو اسے کسی بھی سرکاری سکول میں ملازمت مل جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سکول میں استاد مقرر ہونے کے بعد ان کی تنخواہوں سے مرحلہ وار کٹوتی ہوگی۔ یہ کٹوتی وہ ہے جب وہ شخص ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنے گیا تھا۔ ٹیچر ٹریننگ کے دوران اس پر جو اخراجات ہوئے، وہ اس کی تنخواہ سے کاٹے جائیں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ سندھ بھر میں جو بچے اعلیٰ سطح پر پوزیشنز لیں گے انہیں مرحلہ وار لیپ ٹاپ دیں گے۔ بچوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم ان میں تعلیم حاصل کرنے کے شوق کو بڑھانے کیلئے ہے۔ سندھ کے مختلف طلبہ میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کا نظام مرحلہ وار بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کے حوالے سے جو سوچا تھا وہ کورونا کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اساتذہ اپنی خواہشات کے مطابق تبادلے نہیں کرا سکتے۔ 37 ہزار کے قریب اساتذہ بھرتی کرنے جا رہے ہیں۔ اساتذہ جہاں بھی احتجاج کرنا چاہیں کریں، یہ ریگولر نہیں ہو سکتے۔ سعید غنی نے کہا کہ اساتذہ عدالت کے حکم کی وجہ سے ریگولر نہیں ہو سکتے۔ اساتذہ جو بھی احتجاج کر رہے ہیں، وہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کی آئین اور قانون میں حدود ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان بہت معزز ہیں۔ جج صاحبان کے پاس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ کیا کسی قانون میں لکھا ہے کہ کسی کو کتا کاٹ لے گا تو ایڈمنسٹریٹر معطل ہو جائے گا۔ اگر ہائیکورٹ کے جج حکم فرمائیں گے تو یہ معاملہ ہو سکتا ہے۔ ایسے آرڈرز نہ کئے جائیں جس سے تماشا بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف سندھ میں ہی لوگوں کو کتے نہیں کاٹتے۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی کتے انسانوں کو کاٹتے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ باقی صوبوں میں کتوں کے دانت نہ ہوں۔ کے ایم سی اور ڈی ایم سی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ کتوں کا صفایا کریں۔ متعلقہ محکموں کے افسران کو غیر ذمہ داری پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ کسی حلقے میں کتے کے لوگوں کو کاٹنے پر ایم پی اے کو معطل نہیں ہونا چاہیے۔ سندھ حکومت صوبے میں کتوں کے قلع قمع کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔