زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں کیونکہ بعض اوقات امیدیں ٹوٹنے کا صدمہ جان لیوا ہوتا ہے گویا
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں، زعماء اور کارکنوں کے لیے یہ دن یقینا بڑے پرآشوب ہیں یہ سب امید اور نا امیدی کے گرداب میں کچھ اس طرح سے پھنسے ہیں کہ نہ آگے کے رہے ہیں اور نہ ہی پیچھے کے۔
انہیں لمبی منت سماجت اور سول نافرمانی کی دھمکیوں کے بعد شروع ہونے والے حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات سے یہ امید بندھی تھی کہ اس کے نتیجے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنان بہت جلد جیل سے باہر ہوں گے انہیں یہ بھی گمان ہے کہ مرکز میں اتحادیوں کی ’’کمزور‘‘ حکومت پی ٹی آئی کے احتجاجوں اور مزاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس لیے وہ پی ٹی آئی کے مطالبات ماننے پر مجبور ہے۔ تاہم ماضی کی طرح ان کی یہ امید بھی ٹوٹنے کو ہے ڈیل سے انکاری پی ٹی آئی یقینا ڈیل ہی چاہتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھلا یہ مذاکرات کرنیکی ضرورت ہی کیوں محسوس کرتی۔ تاہم ذرائع اور حالات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آج بھی اپنے اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور ان کے ماسٹر مائنڈز اور منصوبہ سازوں کو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑا جائے گا۔ اگر بات کی جائے منصوبہ سازوں کی اور ماسٹر مائنڈز کی تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اس سے ہرگز بری ا لذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ عمران خان کسی بھی صورت میں باہر آئیں گے فی الحال درست نہ ہوگا۔ شاید اس کا احساس عمران خان کو بھی ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بہن علیمہ خان نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کو جو بیان دیا ہے اس کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا یہ کہنا ہے کہ 26 نومبر کو جو ہوا ہے اس کا حساب دینا پڑے گا ہم نہ بھولیں گے نہ بھولنے دیں گے 26 نومبر کو جو آپریشن کیا گیا اس کا کسی کو تو جواب دینا پڑے گا۔
بانی پی ٹی آئی کا حالیہ بیان اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کسی بھی سطح پر ان کی رہائی ممکن نہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی سطح پر یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو کر ختم ہو جائیں خلاف توقع نہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا سفر رہائی کی بجائے سخت سزا کی طرف جاری و ساری ہے۔ ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں بھی چلایا جا سکتا ہے اور وہ اس حوالے سے فوجی تحویل میں دیے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے حالیہ ریمارکس اس ضمن میں کافی ہوں گے۔ سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں عدالت نے کہا ہے کہ صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو شہری کے ساتھ کچھ نہیں ہو گا، اگر شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل ہوگا۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس صورتحال میں کیا لائحہ عمل اپناتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصر نے بھی حکومت پر واضح کیا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کرائیں ورنہ مذاکرات کو بھول جائیں۔سیاسی رسہ کشی اور کشمکش کے اس ماحول میں ایک خبر نے حکومت کے اس خوشنما سفر کے دعووں کی کلی کھول کر رکھ دی ہے جو وہ گزشتہ لگ بھگ ایک سال سے عوام کے سامنے کر رہی ہے اْڑان پاکستان پروگرام کے سہانے خواب کا دھڑن تختہ اس وقت ہو گیا جب ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ سامنے آئی کہ گزشتہ دس ماہ کے دوران تقریباً مزید ایک کروڑ 20 لاکھ پاکستانی خط غربت سے نیچے آ چکے ہیں۔ یعنی ایک طرف پاکستان کی سٹاک ایکسچینج بلندیوں کے نئے معیار قائم کر رہی ہے تو دوسری جانب ریاست پاکستان تیزی سے’’ غربستان‘‘ میں تبدیل ہو رہی ہے جہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے اور یہ وہ قرضہ ہے جو اس نے یا اس کے اہل خانہ نے کبھی لیا ہی نہیں۔ حقیقت حال تو یہ ہے ریاست پاکستان ملک کے دو فیصد اشرافیہ اور ان کے خواہش و اقارب کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔ اقتدار و اختیار اور دولت کے تمام سرچشمے انہی کی طرف بہتے ہیں۔
رہے ملک کے سوختہ بال عوام تو اس کی اکثریت اس وقت اپنے ماہانہ اخراجات بھی پورے نہیں کر پا رہی۔ بچوں کو پوری خوراک نہیں مل رہی تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کا شکار ہے پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک سے بھاگنے کو ترجیح دے رہی ہے بیرون ملک یخ بستہ سمندروں میں ڈوبتے ہوئے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس امر کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان میں معاشی ناہمواریوں اور نا انصافیوں کہ گھن چکر نے ہر پاکستانی کو پیس کر رکھ دیا ہے یہاں عام پاکستانی کے لیے اس وقت اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے دو وقت روٹی کا انتظام کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔ ’’اڑان پاکستان پروگرام ‘‘ بنانے والے کہیں پاکستان کو واقعی ’’اڑا‘‘ کے نہ رکھ دیں۔ ایسے میں ایک خبر اور آئی ہے جو اس امر کو طشت ازبام کرتی ہے کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کیا ہے۔ خبر کے مطابق فیصل آباد کہ ایک تھانے میں قتل کے الزام میں بند تین سگے بھائیوں کو ان کے مخالفین نے تھانے پر حملہ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کہ آپ ہرگز بھی آئندہ خود کو پولیس کی حراست میں محفوظ نہ سمجھیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ باہر زیادہ محفوظ ہوں۔