احسن خان محبت کا ایسا دریا ہے

احسن خان ہمارا سدا بہار ہیرو ہے ، بظاہر تو یہ فن کی دنیا میں ہمارا ہیرو ہے مگر میں اسے اس کے اخلاقیات کے حوالے سے اپنا ہیرو اس لئے سمجھتا ہوں میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے، باہر سے وہ فنکار ہے ، اندر سے ایسا صوفی ہے جس نے مادیت کی د±نیا سے کہیں دور اپنی” جھگی“بنا رکھی ہے ، جو اصل میں ادب ، خدمت ، محنت اور مروت کی ایک عظیم درس گاہ ہے ، میں نے اسے ”سدا بہار ہیرو اس لئے قرار دیا مجھے لگتا ھے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوگا، خود خوش رہنے والے لوگ بوڑھے ہوسکتے ہیں مگر دوسروں کی خوشیوں پر اپنی خوشیاں قربان کر دینے والے کبھی بوڑھے نہیں ہوتے ، ہمارے اکثر فنکاروں میں رکھ رکھاو¿ بہت کم ہوتا ہے ، بلکہ یوں کہہ لیں ہوتا ہی نہیں ، وہ یہ سمجھتے ہیں ا±ن کی شہرت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی ، قائم رہ بھی سکتی ہے اگر وہ تکبر نہ کریں ، تکبر ایک ایسی لعنت ہے جو کسی سے ج±ڑ جائے ا±سے عرش سے فرش پر گرتے چند سیکنڈ بھی نہیں لگتے ، کوئی انسان جب تک عاجزی اختیار کئے رکھے ، خود کو ملنے والی عزت دولت یا شہرت کو اپنے کسی کمال کے بجائے صرف اور صرف اللہ کی رحمت سمجھے اس کے سارے عیب چھپے رہتے ہیں ، لیکن جیسے ہی وہ متکبرہوتا ہے اس کے سارے پردے قدرت ایسے چاک کرتی ہے ا±سے سمجھ ہی نہیں آتی اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ؟ میری زندگی میں کئی خوبصورت لوگ ہیں وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں ہیں مگر ان کے بچپن یا جوانی سے شروع ہونے والی شہرت یا عزت میں رتی بھر کمی واقع نہیں ہوئی ، کیونکہ انہوں نے عاجزی و انکساری کا دامن بڑی مضبوطی سے تھام رکھا ہے ، ایک ان میں ہمارے لالہ عطا اللہ عیسی خیلوی ہیں، ایسی دوسری مثال مجھے یقین ہے ہم احسن خان کی دیں گے جب وہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی عمر تک پہنچ جائے گا ، ہمارے بیشمار فنکار اپنی شہرت کو ہی اپنی عزت سمجھتے ہیں جبکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اکثر فنکار اس گھٹیا شہرت کے رسیا یا طلبگار ہیں جو بہت عارضی ہوتی ہے ، عزت کا مقام مستقل ہوتا ہے ، فنکاروں میں اس مقام کا کوئی متمنی ہو وہ احسن خان کے ساتھ وقت گزارے ، دنیا میں بیشمار لوگ اسے اس کی شکل و صورت یا اس کے فن کے حوالے سے جانتے مانتے یا پہنچانتے ہوں گے ، مگر میں ایک ایسے احسن خان کو جانتا ہوں جو خود بھی نہیں جانتا وہ کیا شے ہے ؟ وہ جتنا باہر سے اجلا ہے اندر سے اس سے زیادہ ہے ، جو اجالا ا±س کے چہرے پر ہر وقت ہمیں دیکھائی دیتا ہے وہ اصل میں ا±س کے اندر کی روشنی ہے جو باہر لوگوں کو راستہ دیکھائی ہے ، وہ ایسا ”جگنو“ ہے جسے ” تتلیاں “ اپنا دوست سمجھتی ہیں ، وہ لوگوں کی حیثیت دیکھے بغیر ان سے محبت کرتا ہے ، وہ کسی کو ناں نہیں کرتا ، اللہ جانے ا±س کا بچپن کس مشکل میں گزرا ہوگا ؟ اس کا کوئی مداح ا±س کے ساتھ تصویر بنانا چاہے وہ اپنے اور اس کے درمیان اتنا وقفہ بھی نہیں رکھتا جتنا ضروری ہوتا ہے ، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے وہ مشتاق احمد یوسفی کی ا±س گلی کی طرح ہے جس کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا ”اس گلی سے کوئی لڑکا لڑکی اکٹھے گزر رہے ہوں بیچ میں گنجائش صرف نکاح کی رہ جاتی ہے“، احسن خان ا±س گلی سے گزرا اور جو اس وقت اس کے ساتھ گزر رہی تھی وہ اب اس کی بیوی ہے ، اور جو بعد میں اس کے ساتھ گزریں وہ بھی ا±سے اپنا شوہر ہی سمجھتی ہیں ، حالانکہ وہ اب بیویاں کسی اور کی ہیں ،”میں بیوی ہوں کسی اور کی مجھے“شوہرتا ” کوئی اور ہے“ ، احسن خان کو اپنی عزت کروانے کا فن بھی آتا ہے ، ابھی کچھ دن پہلے ہندوستان میں رہنے والے کچھ ادب و فن پسند لوگوں نے دبئی میں اپنے تحبیب لینگوئسٹک فیسٹول میں ا±سے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ، وہ پہلا پاکستانی فنکار ہے جسے یہ اعزاز ملا ، ہر برس باقاعدگی سے ہونے والے اس گریٹ فیسٹول کی صدارت ہمیشہ بھارتی مسلمان شاعر جاوید اختر کرتے ہیں ، جاوید اختر کی بنیادی شناخت ان کی وہ محبت بھری شاعری ہے جو د±نیا بھر میں محبتیں کرنے اور تقسیم کرنے والوں کے لئے کسی بڑے انعام سے کم نہیں ، د±نیا میں محبت کرنے والے کسی خوبصورت موقع پر اپنے کسی عزیز یا دوست کو تحفے میں کوئی پھول نہ دے سکیں وہ جاوید اختر کا کوئی شعر انہیں سنا دیتے ہیں ، میں اکثر یہ سوچتا ہوں ایسی محبت بھری شاعری جاوید اختر اگر نہ کرتے شبانہ اعظمی جیسی عظیم عورت ان کی زندگی میں شاید کبھی نہ آتی ، میں نے شبانہ اعظمی کو ہمیشہ جاوید اختر کی سب سے خوبصورت کوئی غزل ، نظم یا گیت سمجھا ہے ، دبئی میں منعقدہ”تحبیب فیسٹول “ سے احسن خان کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے کمپئیر نے فرمایا”احسن خان کو ان کے “رومانوی کرداروں” کی وجہ سے جانا جاتا ہے“، جاوید اختر صاحب نے بیچ میں کمال کا ل±قمہ دیا، وہ کہنے لگے”ارے بھائی اتنا خوبصورت انسان ولن تو نہیں ہوسکتا “ ، احسن خان کو قدرت نے پیدا ہی رومانوی کرداروں کے لئے کیا ہے ، ا±س کا چہرہ ایسا شربتی سا بنایا ہے وہ صرف رومانوی کرداروں پر جچتا ہے ، ا±سے کسی ڈرامے میں کسی مریض کا کردار دے دیں ، وہ وینٹی لیٹر پر پڑا کسی حسین نرس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے کہہ رہا ہوگا”جان من میرا وینٹی لیٹر اتار دو میں تمہاری بانہوں میں دم توڑنا چاہتا ہوں “ ، البتہ تحبیب فیسٹول میں اس نے بڑی خوبصورت بات کہی ، اس نے کہا ”محبت اسے کہتے ہیں جب آپ یہ چاہیں کوئی آپ کا ہو جائے اور عشق اسے کہتے ہیں جب آپ چاہیں آپ کسی کے ہو جائیں “ ، ایسی خوبصورت بات کوئی فنکار نہیں ایک ” صوفی “ کر سکتا ہے ، احسن خان نے عشق کا درجہ بلند کیا ہے ، اس موقع پر اس نے سراج اورنگ آبادی کا ایک شعر بھی س±نایا
خبر تخیر عشق س±ن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بےخبری رہی
اس موقع پر موقع کی مناسبت سے یہ شعر صرف احسن خان ہی کہہ سکتا تھا جو فنکار سے زیادہ ایک صوفی ہے ایک ادیب ہے اور ادب پرور ہے ، میں اس کے گھر میں منعقدہ کئی ایسی خوبصورت محفلوں میں شریک ہوا جن میں اتنے فنکار نہیں ہوتے جتنے شاعر اور ادیب ہوتے ہیں ، ایسی ہی ایک محفل میں ہمارے بہترین شاعر امجد اسلام امجد مرحوم بھی تھے ، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے احسن خان ان ہی کا کوئی خوبصورت شعر ہے جو انہیں خود بھی بہت پسند تھا ، اپنی نظم کا یہ خوبصورت شعر ا±نہوں نے شاید اسی کے لئے ہی لکھا تھا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
میری خواہش ہے میں بھی کبھی احسن خان جیسا خوبصورت کوئی کالم لکھ سکوں