مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں اَب سب کچھ ہی بکتا ہے۔ وہ تمام چیزیں جو کسی زمانے میں مقدس سمجھی جاتی تھیں، جن کا پیسہ کمانےسے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا تھا، اَب بازار میں دستیاب ہیں۔ جس کے پاس دولت ہے وہ انھیں خرید سکتا ہے۔ بیچنے والے کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ اسے ان چیزوں کے تقدس، اِحترام، مقام سے کوئی لینا دینا نہیں۔
کسی زمانے میں درس و تدریس کا کام نہایت اعلیٰ تصور ہوتا تھا۔ اِس شعبے سے وابستہ لوگ بچوں میں تعلیم ایک مشن کے تحت پھیلاتے تھے۔ ان کے نزدِیک طالب علم ا±ن کے اَپنے بچوں کی طرح ہوتے تھے۔ وہ ا± کی خوبیوں اَور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہوتے تھے اَور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر بچہ کسی طرح پڑھ جائے۔ وہ صبح شام اِسی فکر میں گھلتے تھے کہ کیسے ہر ایک کو علم کے زیور سے آراستہ کردیں۔ اَب یہ کام ایک کاروبار ہے۔ اِس شعبے سے منسلک زیادہ تر لوگ بچوں کو گاہک سمجھتے ہیں جنھیں ا±ھوں نے تعلیم بیچنی ہے۔ وہ اَپنے مال کو خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر، خوشبو لگاکر شو کیس میں رکھتے ہیں۔ گاہک آتے ہیں۔ اگر انھیں شوکیس میں رکھی چیزیں پسند آجائیں اَور وہ قیمت سے بھی مطمئن ہوں تو وہ انھیں مال دے کر خرید لیتے ہیں۔ ورنہ وہ کسی اَور دکان کا ر±خ کرتے ہیں۔ بیچنے والا بھی خوش، خریدنے والا بھی خوش، صرف بکنے والا مال خراب ہوتا جارہا ہے۔ خوبصورت کاغذ اَور خوشبو پر زیادہ زور رہ گیا ہے۔ اصل چیز تو کبھی کبھار ا±س پیکٹ میں ہوتی ہی نہیں۔
نعت پڑھنا ایک سعادت کا کام سمجھا جاتا تھا اَور لوگ نعت خواں حضرات کو محبت اَور عقیدت سے ملتے تھے کہ یہ اَیسے خوش قسمت لوگ ہیں جو نبی اکرم کی شان اشعار میں بیان کرنے پر قادر ہیں اَور آپ سے اَپنی محبت اَور عقیدت کو بہترین اَنداز میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں تاکہ ا±ن کے دِلوں کو بھی گرمائیں اَور ا± کے اَندر بھی عشق رسول کی شمع روشن کریں۔ نعت گو شاعر اَور نعت خواں بھی اِس کام کو سعادت سمجھ کر کرتے تھے۔ اَب یہ بھی کاروبار بن گیا ہے۔ لوگ نعت پڑھنے اَور کہنے کا خطیر معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کہ جب وہ نعت پڑھ رہے ہوں تو سننے والے ا±ن پر نوٹوں کی بارِش کریں۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے نعت گو شاعر اَور نعت خواں حضرات کروڑ پتی تک ہوگئے۔ ا±ن کے جسموں پر نہایت شاہانہ لباس آگئے، نہایت قیمتی ٹوپیاں یا پگڑیاں وہ پہننے لگے ، ا±ن کا پورا حلیہ یہ بتاتا ہے کہ یہ نہایت امیر کبیر اَور شان والے ہیں۔ اِس حلیے میں وہ لوگ یتیموں کے والی، پیوند لگے کپڑے پہننے والے، اَپنے جوتے اَپنے ہاتھ سے مرمت کرنے والے، کئی کئی دِن فاقوں سے بسر کرنے والے کی شان بیان کرتے ہیں تو سننے والوں پر وجد تو طاری ہوتا ہے، اثر کوئی نہیں ہوتا۔جس عشق کی بازار میں قیمت لگالی جائے وہ عشق نہیں ہے، دولت کی ہوس ہے۔ اس عشق کی محبوب کے دربار میں دو ٹکے کی حیثیت بھی نہیں رہتی۔پھر اگر وہ عشق آپ سے ہو تو ا±س کی قیمت لینا تو اَپنے ہاتھ سے ہیرے دے کر مٹی خریدنا ہے۔
لوگوں کو دِین کی طرف بلانے کا کام ایک مشن اَور فرض کے طور پر نبھایا جاتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے بڑی محنت سے، جاں فشانی کے ذریعے دِین کی خدمت کی۔ اَیسی مثالوں سے ہماری تارِیخ بھری پڑی ہے۔ حضرت اِمام حسین ؓ نے جو تارِیخ رقم کی وہ تو اِنسانی قوت و اِستطاعت سے بھی باہر ہے لیکن بعد میں بھی لوگوں نے یہ کام نہایت وفاشعاری سے کیا۔ چاروں بڑے فقہاء، اَولیائے کرام، علماءحضرات نے اِس کام کو بہت محبت سے اَنجام پہنچایا۔ جس کے بس میں جتنا بھی تھا، ا±س نے وہ کرکے دِکھایا۔ اِس کام کا معاوضہ کبھی کسی نبی نے لیا اَور نہ ہی ا±ن کے پیروکاروں نے۔ فقہاء، اَولیائ، علماءسب نے اَپنی روزی کے لیے کچھ اَور کام کیے اَور دِین کی خدمت فی سبیل اللہ کی۔ اَب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے دِین کے نام پر بڑی بڑی سلطنتیں بنائی ہوئی ہیں۔ چندے اَور نذرانوں کی رقم سے وہ کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ لوگوں نے اِس کام کو بھی ایک پیشے کے طور پر اَپنالیا ہے۔ دِین کی تبلیغ کے لیے کی جانے والی تقریرکا معاوضہ بعض جگہوں پر لاکھوں تک جاپہنچا ہے۔ مساجداَور جلسوں میں شعلہ بیان مقرر اَپنے ساتھ ہزاروں یا لاکھوں روپے لے کر جاتے ہیں۔ جب اِس کام کا معاوضہ لیا جاتا ہے تو حق بات نہیں کی جاتی، وہ بات کہی جاتی ہے جو منتظمین یا عوام سننا چاہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ لوگ تقریر کرتے ہوئے بے حد جذباتی ہوجاتے ہیں اَور عوام کو لچھے دار باتوں اَور قسم قسم کے نعروں میں ا±جھا کر کچھ کہے بغیر یا بے کار کی باتیں کرکے اَپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ بے شمار پیر پیدا ہوگئے ہیں۔ ا±ن کے مرید لاکھوں کی تعداد میں ہیں اَور ا±ن کے نذرانے کروڑوں میں ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ پیر صاحب کی کوٹھی، ا±ن کی گاڑیاں اَیسی ہیں کہ بڑے صنعت کار ا±ن پر رشک کریں۔ شریعت کے مطابق وہ شخص جو ہمہ وقت صرف دِین کی خدمت کرتا ہو اَور اِس کی وجہ سے اَپنی روزی کے لیے کچھ اِنتظام نہ کرسکتا ہو، ا±س کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ دِین کی خدمت کا اِتنا معاوضہ لے سکتا ہے جس سے اس کی اَور گھر والوں کی زِندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ ا±س کے مرنے کے بعد اس کی کوئی جائیداد نہ ہو جسے وراثت میں تقسیم کیا جاسکے۔
صحت کا شعبہ بھی اَب دکان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ معالج جو کسی زمانے میں لوگوں کی خدمت کرنے کو عبادت سمجھا کرتا تھا، اَب بے شمار طریقوں سے دولت کمانے پر لگ گیا ہے۔ لوگوں کو قسم قسم کے ٹیسٹ کرانا، وہ دوائیاں تجویز کرنا جن کی کمپنیوں نے ڈاکٹر صاحب کو بیرونی ممالک کے دوروں، مختلف قیمتی تحفوں کے ذریعے رام کیا ہوتا ہے، سرکاری ہسپتال میں ہوتے ہوئے مریض کو نہ دیکھنا اَور ا±سے اَپنی پرائیویٹ کلینک پر آنے کی ہدایت کرنا، بے جا فیسوں کا جال اَب عام باتیں ہیں۔ کسی خوفناک بیماری کا علاج ایک غریب کی پہنچ سے تقریباً باہر ہوچکا ہے۔ میں اَیسے ڈاکٹر کو بھی جانتا ہوں جو ایک بہت بڑے ہسپتال کے مالک ہیں اَور مرتے ہوئے مریض کو بھی مناسب رقم نہ ہونے پر ہسپتال سے باہر نکال دیتے ہیں۔
حج اَور عمرہ بھی مال بنانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ لوگوں نے بڑی بڑی کمپنیاں کھول رکھی ہیں اَور لوگوں کو حج اَور عمرے پر بھیج کر کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ وہ کام جو عبادت ہے، وہ بھی اَب مال خرچ کرکے کیا جاتا ہے اَور اِس کام میں بھی لوگ طرح طرح سے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔
قرآن ِ حکیم کی اِشاعت بھی ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔ اِس میں بھی لوگوں نے خوب مال بنایا ہے۔ کیا کسی نے کسی قرآن پر ہدیہ چھپا ہوا دیکھا ہے؟ کیا اِس بات کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ میں کتنی کاپیاں شائع کی گئیں اَور ا±ن پر کیا خرچ آیا اَور کس حساب سے منافع کمایا گیا؟ کسی قرآن پر اِشاعت کا سال بھی درج نہیں ہوتا۔اَیسا صرف ٹیکس بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پھر دوسروں کے چھاپے ہوئے ق±رآن کی فوٹو کاپی کرکے ا±سے اَپنے اِدارے کے تحت شائع کردینا بھی عام ہے۔ گویا قرآن کی اِشاعت میں بھی بے تحاشہ بے اِیمانی پائی جاتی ہے۔
یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ ہر وہ چیز جو کسی زمانے میں اَور آج بھی کئی ممالک میں خدمت سمجھی جاتی ہے، ہمارے یہاں کاروبار بن چکی ہے۔ ہم ہر چیز پر ، ہر طرح سے مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر کام کا تقدس اَب نوٹوں کے اَنبارمیں دب کے دم توڑ چکا ہے۔ ہم نے کوئی اَیسا کام نہیں رہنے دِیا جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہ کام پاکستانی صرف فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ جب یہ حالات ہوں، تو بے برکتی کیوں نہ پنجے گاڑے۔ جب ہر مال دو آنے میں بکنا شروع ہوجائے تو اِنسان، دِین، شریعت، محبت، خلوص ہر چیز کی قیمت لگنا شروع ہوجاتی ہے۔