ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

لٹ گئے، مر گئے ، بیڑہ غرق ہو گیا، سسٹم تباہ ہوگیا، کوئی امید نہیں اور اس جیسی سیکڑوں بھا نت بھانت کی باتیں روز ہی ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان باتوں میں کبھی کبھی حقیقت بھی ہوتی ہے کہ کئی سالوں سے ہمارے پیارے ملک کے ساتھ اپنوں اور غیروں کے کہنے پر جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے ،جس کی وجہ سے معاملات بجائے بہتری کی جانب جاتے تباہی و بر بادی ہمارا مقدر بنتی چلی گئی۔ آج ہم جس نہج پر کھڑے ہیں یہ ہمارے سالوں پر محیط ان بد ترین معاملات کا نتیجہ ہے ۔ لیکن ان تمام تر برائیوں ، بد اعمالیوں اور بدترین گورننس کے باوجود بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو سسٹم کی بہتری کے لئے خاموشی سے اپنے حصے کا کام کئے جا رہے ہیں اور ایسے لوگ اس گئے گذرے دور میں چراغ کی مانند ہوتے ہیں جو مایوسیوں اور نا امیدیوں کے اس دور تک پھیلے ہوئے اندھیروں میں روشنی کی سفیر ہوتے ہیں ۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ڈائریکٹر جنرل، مدثر ریاض ملک کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ بطور ڈپٹی کمشنر لاہور ، ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی اور سوشل ویلفئیرایسے ایسے اقدامات اٹھائے کہ جنہیں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ جہاں بھی گئے اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے تاریخ رقم کرگئے۔ محکمہ جنگلی حیات سننے کو تو بہت معمولی سا محکمہ لگتا ہے لیکن اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے وجود میں آچکا تھا اور اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے ۔ یہ محکمہ 1934ء میں گیم ڈیپارٹمنٹ کے نا م سے قائم ہواجو1973 میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات وپارکس پنجاب کے نام سے ازسرِنو منسوب ہو کر صوبائی محکمہ جنگلات، جنگلی حیات وماہی پر وری پنجاب سے منسلک کر دیا گیا۔محکمہ کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ 10علاقائی/ ڈویژنل دفاتر، 36ضلعی دفاتر اور 119تحصیل دفاتر پر مشتمل ہے۔صدر دفتر لاہورکے علاوہ دیگر علاقائی اور ڈویژنل دفاتر بھی ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال، سرگودھا، ملتان،سالٹ رینج چکوال، راولپنڈی، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف ایکٹ (ترمیمی 2007ئ) اور ترمیم شدہ قواعد وضوابط2010ء کے تحت صوبہ میں جنگلی حیا ت کے تحفظ، قیام، بقا اور بندوبست کیلئے کا م کر رہا ہے۔صوبہ بھرمیں محکمہ کے زیر انتظام 1221ایکڑپر محیط 14وائلڈلائف پارکس، 62ایکڑپر 3چڑیا گھروں اور 242ایکڑ پرمحیط 1سفاری زو میں خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی مقامی آبادی کی اسیری میں کامیاب افزائش نسل جاری ہے عوام کی تفریح، تعلیم و تحقیق کے لئے ان پارکس اور چڑیا گھر وں میں 45اقسام کے 1221 ممالیہ ، 195اقسا م کے 5826پرندے جبکہ11اقسام کے 215چرندے رکھے گئے ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میںعوام ، اپنی علمی و تحقیقی تشنگی دور کرنے کے علاوہ تفریح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔صوبہ کے طول وعرض میں ایک قدرتی ماحول میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کیلئے 497612ایکڑپر مشتمل 37 وائلڈ لائف سینگچوریز (جنگلی حیات کی محفوظ پنا گاہیں)،568205ایکڑ پر مشتمل 24محفوظ شکارگاہیں قائم کی گئی ہیں علاوہ ازیں چولستان اور سالٹ رینج میں وائلڈ لائف پر وٹیکشن فورسز کا قیا م بھی اسی مقصد کے پیشِ نظرکیا گیا ہے۔صوبہ میں اڑیال کی آبادی کو تحفظ دینے کیلئے سالٹ رینج میں پانچ کمیونٹی بیسڈ آرگنائز یشنزکلرکہار سی بی او چکوال، پوٹھوہار کنزرویشن سی بی او چکوال، وائلڈلائف لورز جہلم،ویسٹرن سی بی او جہلم اور کالاباغ سی بی او میانوالی بھی اسی سلسلے کی مضبوط کڑیاں ہیں۔

انتہائی اہمیت کے حامل محکمہ جنگلی حیات کو مزید بہتر اور یہاں کے معاملات میں شفافیت لانے کے لئے مدثر ریاض ملک اور زو مینجمنٹ کمیٹی کی روح رواں اور عالمی طور پرجنگلی حیات کے’’ محسن ‘‘کے طور پر مشہور بدر منیر دیوانوں کی طرح مصروف عمل ہیں ۔ یہ ان دونو ں ہی کی کاوشیں ہیں کہ اہالیان لاہور کو سفاری زور پارک کی صورت میں عالمی طرز کا سفاری پارک بنا کر دیا اور اس پروجیکٹ میں بھی کروڑوں روپے کی بچت کی گئی ۔ چار جانوروں کی قیمت میں سات جانوروں کی خریداری کے معاملات طے کئے گئے اور پھر اس سفاری زو پارک کو انتہائی کمرشل طریقے سے چلانے کے لئے ٹھیکے پر دے دیا گیا جس میں سے بھی کروڑوں روپے کی بچت ہوئی اور حالیہ دنوں میں لاہور زو کی تعمیر نو اور پھر اس کی نیلامی میں بھی بالخصوص بد ر منیر اور مدثر ریاض ملک کی کاوشوں سے32کروڑ والا ٹھیکہ 50کروڑ روپے میں ایک نجی فرم کو دے دیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف قومی خزانے کو فائدہ حاصل ہوا ہے بلکہ ہر سال ان دونوں پروجیکٹ کو چلانے کے لیے کثیر بجٹ سے بھی جان چھڑا کر قومی خزانے کا بوجھ کم کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے ۔

مدثر ریاض ملک اور بد ر منیر جیسے لوگ، اندھیرے کے اس دور میں انتہائی نیک نیتی اور پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا نے کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور ان کے یہ اقدامات دوسروں کے لئے بھی روشن مثال بنیں گے اور اس بات کو بھی مزید یقینی بنا رہے ہیں کہ ۔ بد ترین حالات میں احسن ترین کارنامے سر انجام دینے والے ان جیسے لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ :ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔