جنوبی پنجاب کا صدر مقام مدینہ اولیاء تاریخی اعتبار سے ایک قدیم اور روایتی شہر ہے، جس میں قدامت اور جدت پسندی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے،قلعہ میں بند پرانا شہر اب وسعت پاچکاہے، جدید طرز کی سوساٹیز وقوع پذیر ہیں، اس کا اضافی وصف یہ بھی ہے کہ عہد جمہوری ہو یا غیر جمہوری شہر کی نہ صرف نمائندگی پارلیمنٹ میں رہی ہے بلکہ اعلی پارلیمانی مناصب اس کا مقدر رہے ہیں،لیکن شہری ترقی کا وہ پیمانہ نہیںجس کا عکس ہمیں لاہور، راولپنڈی، گوجرانولہ ،فیصل آباد میں ملتا ہے۔
آپ ٹریفک کے نظام ہی کو لیں، تو مذکورہ شہروں کے مقابلہ میں آبادی کم ہونے کے باوجود سب سے بے ہنگم ٹریفک یہاں پائی جاتی ہے، بڑی وجہ تو شاہرات اور پلوں،چوراہوں،سروس روڈزکی تعمیر ٹریفک انجینئرنگ کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے،ہرچند معیاری ،لگژری میٹرو بس سروس کی سہولت میسر ہے لیکن اس کے روٹ کے نیچے چوراہوںکی تعمیر میں بھی ٹریفک انجینئرنگ کے اصولوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ،ان مقامات پر ہر وقت ٹریفک بلاک رہتی ہے،کم وبیش یہی حال سروس روڈز اور یو ٹرن کا ہے،عوام کی غالب تعدادانھیںاستعمال کرنے کی بجائے رانگ سائیڈ پر ٹریفک کے بہائو کے مخالف بلا دھڑک سڑک پر آتی ہے تو حادثات ہوتے ہیں۔
بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شاہرات کو وسعت نہیں دی گئی، پیک آورز میں ٹریفک کا ہر مقام پر بلاک رہنا اب معمول بن گیا ۔ شہر میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی تعداد جب واجبی سی تھی، تب بھی خانیوال سے ملتان شہر میں داخلے کے لئے سڑک کی وسعت اتنی تھی فی زمانہ جب گاڑیوں کی تعداد اور ٹریفک میں ہوشر باء اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،تب بھی اس سڑک کے حجم میں کوئی فرق نہیں ہے، اوور ہیڈ برج سے کچھ سہولت تو ملی ہے، لیکن ٹریفک میں روانی نہیں ۔
چوک قذافی کا ڈیزائن دیکھ کر تو عقل دنگ ہی رہ جاتی ہے کہ یہ کس کا شاہکار ہے،بے ڈھنگے انداز کا یہ چوراہا اپنی مثال آپ ہے،اس مقام پر نصب سگنل کے آپریشنل نہ ہونے کی بڑی وجہ چوک کا ڈیزائن ہے۔شہر بھر میں تادم تحریر کوئی ٹریفک سگنل کام نہیں کر رہا ہے،ٹریفک کی عدم روانی کی دوسری وجہ رہائشی علاقہ جات کو کمرشل بنانا ہے قریباً ہر معروف کالونی میں اب مارکیٹیں بن رہی ہیں راوی یہ بتانے سے قاصر ہے،کس ضابطہ اور قانون کے تحت یہ تبدیلی کی جارہی ہے ،ایسی مارکیٹس میں پارکنگ کی جگہ رکھی ہی نہیں جاتی، اسکی بڑی مثال برینڈ روڈ ہے جو گلگشت کالونی میں واقع ہے، اب ہر گلی کمرشل ہوتی جارہی ہے،اس کالونی کا سٹیٹس بدلتے وقت نجانے وہاں کے شہریوں کی رائے لی گئی ہے یا نہیں جنہیں دن رات کسی نہ کسی ہنگامے کا سامنا رہتا ہے۔
پارکنگ کا مسئلہ اندرون شہر بالخصوص گمبھیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے، المیہ یہ ہے کہ جہاںبھی نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں ،وہاں بھی دکانیں اب برلب سڑک آگئی ہیں، مستقبل میں پارکنگ کی جگہ نایاب ہو گی، تمام منڈیاں بھی شہر میںٹریفک کی سست روی اور بند رہنے کا سبب ہیں،عوام کو دن بھراس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے،لیکن اس کا فائدہ ہماری ٹریفک پولیس کو پہنچ رہا ہے،اگر یہ کہا جائے کہ شہر کی70فیصدمارکیٹس میں پارکنگ سرے سے نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ناجائز تجاوازت کی مہم کی آڑ اور معزز عدالت عالیہ کے حکم نامہ کے پردہ میں لفٹر کے ذریعہ گاڑیاں ا ٹھانا اب ٹریفک پولیس کا معمول ہے اس پاداش میں بھاری بھر جرمانوں کا سلسلہ جاری ہے،نہیں معلوم عدلیہ نے کس تناظر میںرانگ پارکنگ پر جرمانہ کرنے کو کہا ،حالانکہ معروف نشتر، سول، چلڈرن، فیملی بشمول پرائیویٹ ہسپتال ایسے مقامات پر واقع ہیں، جہاں نزدیک کوئی بڑی پارکنگ نہیں ہے، اب مریضوں کے لواحقین کہاں گاڑیاں پارک کریں؟یہ ٹریفک پولیس کی سر دردی نہیںاندورن شہرمقامات میں اتنی وسعت بھی نہیں کہ معروف بازاروں میں ہر گاڑی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو جگہ مل سکے، ٹریفک پولیس کے ذمہ داران عدلیہ کے سامنے حقیقی منظر نامہ رکھتے تو شائدمعزز عدالت اِسی تناظر فیصلہ صادر کرتی۔
معروف کالم نگار خالد مسعود نے ملتان کی ٹریفک پولیس کی بابت لکھا کہ شہر میں گاڑیاں اٹھانے کے لئے نو لفٹرز ہر وقت حرکت میں ہیں،یومیہ25چالان کرنے کا ٹارگٹ ہر لفٹر کو دیا گیا ہے،یوں ہر لفٹر پچاس ہزار سے زائد کی دیہاڑی لگاتا ہے، محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ ایک کروڑسے زائد رقم ملتان کے شہریوں کی جیب سے نکالی جاتی ہے،بقول ان کے یہ کسی نام نہاد فنڈ میں جمع ہوتی ہے ،جو افسران نے قائم کر رکھا ہے۔
گزشتہ دنوں راقم نے بھی حصہ ڈالا ، جب برینڈ روڈ پر لفٹر نمبر چار کے اہلکاروں کے ہتھے بندہ اس وقت چڑھ گیا، جب گاڑی سے نکل کرپارکنگ کی جگہ اور اپنی فیملی کو دیکھ رہا تھا، جو دکان سے باہر نکل رہی تھیں، شومئی قسمت میرے پاس سیل فون نہ تھاکیونکہ جہاں گاڑی رکی وہاں پلازے کی کھدائی تھی،ملتان ٹریفک اہلکاروںکے لئے یہ مقام’’ہاٹ کیک‘‘ ہے، جہاں گاڑی کو سڑک پر کھڑا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،پارکنگ کے لئے کوئی غیر معمولی جگہ یہاں نہیں ہے،اس’’ واردات ‘‘پر عوامی نمائندگان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ شہر میں حادثات کی بھر مار ہے،ریسکیو ذرائع کہتے ہیں کہ اگر 24گھنٹے میں سو حادثات ہوں تواٹھانوے ملتان میں ہوتے ہیں،سبب یہ بھی ہے کہ ابھی تک ٹریفک ذمہ داران عوام کو لین اور لائن کی پابندی کرانے سے قاصر ہیں۔ کالے شیشوں کا معاملہ بھی ہے، اس کے لئے کوئی ایس او پی نہیں جس کا فائدہ بہر حال ٹریفک وارڈن کو ملتا ہے،جنوبی پنجاب کی گرمی میں یہ ناگزیر بھی ہیں۔
سماجی شخصیت محترم ناصر محمود شیخ نے ٹریفک پولیس کے ذمہ داران کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی رائے یہ ہے کہ ٹریفک ڈیپارٹمنٹ اب شعبہ ’’ ریونیو کلکشن‘‘ بن گیا ہے، آپ کچہری کے سامنے سڑک کے بیچ کھڑی گاڑی اٹھانے کا رسک لے سکتے ہیں تو حاضرین نے کہا ہم کیا وہاں تو بڑے بڑوں کے پرَ جلتے ہیں، اس اعتراف کے بعد اخلاقی طور پر لفٹر کی ڈیوٹی موجود پر مامور اہلکار عام شہری کی گاڑی رانگ پارکنگ کی پاداش میں اٹھانے کے حق دار ہیں ان کا ضمیر کیا ملا مت نہیں کرے گا؟۔
شہر بھر میں پارکنگ کی مناسب جگہیں فراہم کرنے کے بعد چالان کا بازار گرم کرتے تو بات سمجھ میں آتی، یہ اکیلے ہی مجرم نہیں بلکہ وہ ادارے بھی برابر کے شریک ہیں جوپارکنگ کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دکانوں، پلازوں کے قیام کی اجازت دیتے ہیں۔