تباہیاں و خرابیاں مزید بڑھیں گی

میرے منہ میں خاک ، مگر مجھے نہیں لگتا ہمارا 2025 ہمارے 2024 سے بہتر گزرے گا بلکہ میں اس یقین میں مبتلا ہوں ہمارے حالات مزید بدتر ہوں گے ، ہم کسی ’’معجزے‘‘ کی تلاش میں ہیں کہ ہمارے حالات درست ہوجائیں ، ہمارے حالات سے میری مراد ہمارے ذاتی حالات ہیں ، دوسروں کے حالات چاہے خراب ہی رہیں ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے ، ہم صرف دوسروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ٹھیک بھی صرف اپنے لئے کرنا چاہتے ہیں ، یعنی ہم یہ چاہتے ہیں دوسرے صرف ہماری مرضی مفاد یا منشا کے مطابق صرف ہم سے ٹھیک ہو جائیں باقیوں سے ہوں نہ ہوں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہم صرف اپنے حالات درست کرنا چاہتے ہیں پاکستان کے حالات درست نہیں کرنا چاہتے ، یہی سوچ ہماری بڑی بڑی شخصیات اور بڑے بڑے اداروں کی ہے ، ان حالات میں سانحے ہوتے ہیں معجزے نہیں ہوتے ، چنانچہ روز اک نئے سانحے کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے ، پڑھے لکھے لوگوں نے پاکستان کو برباد کر کے رکھ دیا اور ہم جو اپنے صوفی دانشور بابے اشفاق احمد کی اس بات پر یقین نہیں کرتے تھے کہ پاکستان کو زیادہ نقصان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا ہے اب اس نتیجے پر پہنچ گئے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہی صرف پڑھے لکھے لوگوں نے ہے ، جو حالت میں نے اپنی ، اپنے بیشمار پڑھے لکھے ججوں جرنیلوں جرنلسٹوں اور افسروں کی دیکھی ہے میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں یہ ملک ان پڑھوں کے سپرد کر دیں وہ اسے کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ بہتر طریقے سے چلا لیں گے ، 2024 ہم نے ان ہی پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ گزارا 2025 میں بھی یہی پڑھے لکھے لوگ ہمارے گٹے گوڈوں میں بیٹھے رہے ہم پھر بہتری کی کوئی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ سب سے زیادہ ضروری یہ تھا ہم اپنے عدالتی نظام کو ٹھیک کرتے ، 2024 میں ہم اسے مکمل طور پر برباد کر کے بیٹھ گئے ، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا ‘‘پاکستان میں سیاسی عدالتیں بن گئیں ، فوجی عدالتیں بن گئیں ، اصلی عدالتیں اللہ جانے کب بنیں گی ؟ ہمارے بیشمار ادارے بھی اپنا اعتبار اعتماد و عزت آبرو کھو چکے ، سب سے بڑی تباہی ہماری اخلاقیات کی ہوئی ، رشتوں میں اعتماد کا فقدان بھی اسی تباہی کا حصہ ہے ، اولاد والدین سے مخلص نہیں ، بیوی ، شوہر سے ، شوہر بیوی سے مخلص نہیں ، بھائی بھائی سے ، دوست دوست سے مخلص نہیں ، پچھلے دنوں ہمارا ایک یوٹیوبر رجب بٹ مجھ سے ملنے میرے گھر آیا ، اْس کے ساتھ اْس کے وہ دوست بھی تھے جو ہر وقت اْس کے ساتھ ہوتے ہیں ، میں نے اْن سے کہا ‘‘آپ کی دوستی دیکھ کر اْسی طرح رشک آتا ہے جیسے کبھی احسن شاہ اور بالاج ٹیپو کی دوستی پر آتا تھا ’’، خون سفید ہونے کا ایک اور واقعہ بھی سْن لیں ، میرے ایف سی کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے ایک بہت ہی جائز کام مجھ سے کہا ، میں نے کوشش کر کے وہ کام کرا دیا ، وہ مجھ سے کہنے لگا ‘‘سر میرے ابو آپ کے شکریہ کے لئے آنا چاہتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے اْنہوں نے مجھ سے کہا تھا یہ کام ہر حال میں ہونا چاہیے ، اس کے لئے دس بیس لاکھ اگر کسی کو دینا پڑے ہم دے دیں گے ، سر میں نے اْن سے دس لاکھ لے لئے تھے ، اگر اْنہوں نے اس کا کوئی ذکر آپ سے کیا آپ اْن سے کہہ دیجئے گا کام تو بیس لاکھ کا تھا مگر میں نے دس لاکھ میں کرا دیا ہے’’ ،مجھے بہت غصہ آیا ، میں نے کہا ‘‘تم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو ، میں جانتا ہوں تمہارے والد کی اربوں کھربوں کی پراپرٹی ہے جس کے وارث بالآخر تم ہی ہو گے ، تمہیں شرم نہیں آئی اپنے والد کو دس لاکھ کا چْونا لگاتے ہوئے ؟ تم میری عزت بھی داغدار کر رہے ہو ، وہ یہ سمجھیں گے یہ رقم میں نے لی ہے ، سو میں تمہارے والد کو صاف صاف بتا دْوں گا اس کام میں ایک پیسہ کسی نے نہیں لیا ’’ ، وہ میری بات سْن کر پریشان ہوگیا ، وہ مجھ سے پوچھنے لگا ‘‘ اب اس کا حل کیا ہے؟ ،میں نے کہا ‘‘تم وہ رقم لاکرمجھے دو جب تمہارے والد میرا شکریہ ادا کرنے آئیں گے میں وہ رقم یہ کہہ کے اْنہیں واپس کر دْوں گا کہ کسی نے اس کام کے دس لاکھ مانگے تھے مگر بعد میں اْس نے نہیں لئے چنانچہ یہ آپ رکھ لیں ،’’ اس طرح تمہاری عزت بچ جائے گی‘‘ ، اْسے میرا یہ مشورہ اچھا لگا ، میں نے جب اْس کے والد کو رقم واپس کی وہ حیران ہوگئے ، وہ بہت عظیم انسان ہیں ، وہ مجھ سے کہنے لگے ‘‘یہ دس لاکھ آپ میری طرف سے انعام رکھ لیں’’ ، میں نے اْن کا دل رکھ لیا ، میں نے اْن سے کہا یہ دس لاکھ آپ میری طرف سے شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کر دیں اور میرے نام کی رسید بنوا کرمجھے واٹس ایپ پر بھیج دیں ’’ ، آپ کو یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ تھا سب سے عظیم رشتہ تو اولاد اور والدین کا ہوتا ہے ، جب اولاد ہی اپنے والدین سے مخلص نہ رہے ، اْس معاشرے کو مکمل تباہی کی طرف بڑھنے سے کون روک سکتا ہے ؟ ساری اولادیں ایک جیسی نہیں ہوتیں ، نہ سارے رشتوں کے خون سفید ہوگئے ہیں ، میں صرف بداخلاقی کے اْس کلچر کی نشاندہی کر رہا ہوں جو ہمارے معاشرے میں مسلسل زہر گھول رہا ہے ، ہمارا میڈیا خاص طور پر ہمارا سوشل میڈیا ہمیں مکمل تباہی کی طرف لے جارہا ہے ، ہمارا خاندانی سسٹم آخری ہچکیاں لے رہا ہے ، ادھر ہم کسی کی شادی میں شرکت کر کے واپس آتے ہیں اْدھر پتہ چلتا ہے طلاق ہوگئی ہے ، پاکستان میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کسی کو اپنی زبان پر کنٹرول ہی نہیں رہا ، پہلے کوئی شوہر اپنی بیوی سے ہلکی پھلکی بدتمیزی کرتا تھا ، بیوی خاموش رہتی تھی ، اب اکثر بیویاں شوہروں سے دو ہاتھ آگے ہیں جس کے نتائج ظاہر ہے اچھے نہیں نکل رہے ، نہ اس کی کسی کو پروا اس لئے ہے اکثر شوہروں اور بیویوں کی ضروریات طلاق یا علیحدگی کے بعد بھی پوری ہوتی رہتی ہیں ، جہاں تک ہمارے ‘‘سرکاری و ریاستی ڈھانچے ’’ کی بات ہے وہ واقعی اب ایک ‘‘ڈھانچہ’’ ہی ہے جسے صرف دفنایا جانا باقی ہے ، اکثر سرکاری افسروں اور اْنہیں کنٹرول کرنے والوں کا دین دھرم اب صرف پیسہ ہے ، پہلے پانچ وقت نمازوں کی بات ہوتی تھی اب اگلے روز ایف آئی اے کا ایک افسر مجھ سے کہہ رہا تھا ‘‘میں پانچ وقت کی رشوت لیتا ہوں’’ ، بدقسمتی سے حرام کاریاں اْس ادارے کے افسران اب زیادہ کر رہے ہیں جس پر ہمارا اعتماد کبھی زیادہ ہوتا تھا ، ان حالات میں ہم یہ توقع کریں ہمارا 2025 ہمارے 2024 سے بہتر ہوگا ، بالکل نہیں ہوگا ، البتہ بدتر بلکہ بدترین ضرور ہوگا۔