حرص کے پنجے میں قید انسان

قدرت کے اپنے کچھ فیصلے ہیں مگر غفلت کی نیند سویا ہوا انسان اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنا تو دور، سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ دراصل انسانی زندگی سراسر مجموعہ اضداد ہے، خوشی و مسرت، رنج و غم کا ایک عجیب سنگم ہے، پل میں مصیبت، پل میں راحت لیکن نا تو دنیاوی زندگی کے فرحت و سکون کے لمحات کو دوام ہے اور نہ ہی درد و الم کے صدمات کو قرار، ساری زندگی ہی تغیر و تبدل سے عبارت ہے۔ خوشی کے تمام لمحات غیر محسوس طریقے سے گزر جاتے ہیں جبکہ مصائب و مشکلات کا معمولی سا وقفہ بھی بحرِ حیات میں تلاطم اور ہلچل بپا کر کے رکھ دیتا ہے، مبتلائے درد کے لیے پل پل کوہِ گراں ثابت ہوتا ہے۔ انسانی فطرت آسانی اور خوشی کی خوگر اور عادی ہے، امتحان و آزمائش، درد و الم اور رنج و غم کی ہلکی سی پھوار بھی سوہانِ روح اور طوفانِ بلاخیز ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا، تا کہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آ جائیں‘‘۔ یعنی خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمالِ بد کے باعث عذاب پھیل گیا۔ آج تک دنیا میں جو بھی مشکلیں اور مصیبتیں انسانوں پر آئیں، مثال کے طور پر قحط، وبائیں، زلزلے، سیلاب، ظالموں کا تسلط، ان کا اصل سبب یہ تھا کہ لوگوں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور اس طرح کی مصیبتیں اپنا نصیب بنا لیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم سے پہلے کتنی ہی قومیں اپنے اعمال کے باعث تباہی و زوال کا شکار ہوئیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں بلکہ دل اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں‘‘۔(سورۃ الحج)۔ دینِ اسلام کی تعلیمات جہاں حلال ذرائع سے رزق کمانے پر زور دیتی ہیں وہیں حرام ذرائع سے اجتناب کرنے کا حکم بھی دیتی ہیں، مگر پھر بھی انسان اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز و نا جائز ذرائع اختیار کرتا ہے اور پھر ظاہری چمک دمک اور عیش و نشاط کی محافل میں الجھا انسان اپنی اصل حیثیت و پہچان بھول جاتا ہے، پھر وہ اپنے ماحول، معاشرے اور لوگوں کی حق تلفی کرتا ہے۔ معیارِ زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے اور اپنے نفس کی تسکین کے لیے پھر بد عنوانی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم کو اے گناہگارو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سی تو درگزر ہی کر دیتا ہے‘‘۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ لالچ و حرص نے بہت سی قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، کئی سلطنتوں کو زمین بوس کیا اور عظیم شخصیات کو ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو ہر چیز کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے، چاہے عزت ہو، وقار یا پھر سکون۔ لالچ اور نا انصافی ہی کے باعث ہی معاشرے میں بدعنوانی، دھوکہ دہی اور استحصال عام ہوتا ہے۔ لالچ انسانی فطرت کا وہ پہلو ہے جو خواہشات کی بے لگام شدت کا مظہر ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ ہر حصول کے ساتھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ ایک طبقاتی تقسیم کا شکار ہے، جہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں نوجوان اس دبائو میں مبتلا ہیں کہ انہیں اپنے ہم عمروں کے معیار پر پورا اترنا ہے۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے معاشرے کو مادی اشیاء کے حصول کی طرف مائل کر دیا۔ تقریباً ہر پلیٹ فارم پر لوگوں کی زندگیوں کو خوشنما انداز میں ڈھال کر پیش کیا جا رہا ہے جس کے باعث نئی نسل کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ خوشی اور کامیابی صرف دولت و طاقت میں ہی ہے۔ خواہ اس کے لیے اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہی کیوں نا کرنا پڑے۔ دکھاوے اور حرص کا دن بہ دن بڑھتا یہ رجحان ایک ایسا خطرناک مسئلہ ہے جو نا صرف لوگوں کی انفرادی زندگیوں بلکہ معاشرتی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’’دنیا سے بے رغبت رہو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کی چیزوں سے بے نیاز رہو، لوگ تم سے محبت کریں گے‘‘۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرم اور گناہگار قوموں کو اسی ماحول، حالات اور اسباب کے ذریعے عذاب سے دوچار کرتا ہے۔ جن سے وہ اپنی عام زندگی میں مستفید ہوتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہی اسباب جو آج ہمارے لیے زندگی کا سامان بنے ہوئے ہیں، کبھی ہمارے لیے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ جیسے قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا روئے زمین پر طاقتور کوئی نہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کر کے انہیں زمین پر یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود اور قومِ مدین کے لوگوں پر چھنگاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ قوم ثمود نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی اُونٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا۔ قوم مدین کے لوگ کاروباری بے اعتدالیوں پر اصرار کرتے رہے چنانچہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اسی طرح قرم سدوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان و زمین کے درمیان اُ ٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پتھروں کے ذریعے ان کے وجود کو مسل دیا کیونکہ وہ نا فرمان تھے۔ انسان غافل ہے اور بے شک خسارے اور جلد بازی میں ہے۔
اس سرابِ زندگانی میں۔۔ اے خالقِ کن فیکون
میری حقیقت ہے یہی۔۔ اِناللہ ِ و اِنا اِلیہ راجعون