پاکستان کا قےام بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث و انتھک محنت اور جد و جہد کا نتےجہ ہے۔ جنہوں نے اپنی اعلیٰ دماغی صلاحےتوں، بے پناہ جذبہ عمل اور مستقل مزاجی سے کام لے کر ہندستان کے مسلمانوں کو بےدار کر کے ان کے دل مےں باعزت طرےقے سے زندہ رہنے کی ایسی لگن پےدا کی کہ وہ اپنے تارےک اور بھےانک مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے آگ سے کھےلنے اور خون سے نہانے پر تےار ہو کر مےدانِ عمل میں گامزن ہو گئے اور اس شان سے گامزن ہوئے کہ دس سال کی قلےل مدت مےں وہ اپنے سے انتہائی طاقتور، بااثر اور دولتمند دشمن کو شکست دے کر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامےاب ہو گئے اور اس طرح انہوں نے دنےا پر اےک مرتبہ پھر ےہ حقےقت عےاں کر دی کہ بےسوےں صدی کا مسلمان بھی زندہ رہنا جانتا ہے اور محےرالعقول کارنامے انجام دےنے کی اپنے مےں طاقت رکھتا ہے البتہ اسے جس چےز کی ضرورت ہے وہ اچھی قےادت ہے اور اسے اچھی قےادت نصےب ہو جائے تو وہ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی اپنی پوری صلاحےت رکھتا ہے۔
انسانی تارےخ بار بار بتاتی ہے کہ وہی قومےں باعزت طور پر زندہ رہتی ہےں جو اپنے رہنماو¿ں کی خدمات اور ہدایات کو فراموش نہیں کرتیں، بلکہ ان کی تبلےغ و اشاعت کا فرض بھی سر انجام دےتی ہےں۔ قائد پاکستان کو اےک کمزور ملک بنانے کے خواہشمند نہےں تھے جسے دےکھ کر طاقتور ممالک کی رال ٹپکنے لگے۔ لےکن ہم دےکھتے ہےں کہ آج ہم اپنے قائد کے فرمودات اور رہنمائی کو بھول چکے ہےں۔ قےامِ پاکستان کا مقصد اےک مکمل آزاد جمہورےہ کا قےام تھا۔ خواہ اسے اسلامی نصب العےن سے دےکھا جائے یا جدید نظریات کے لحاظ سے۔ آج ہمارے ہاں سب کچھ بدل چکا ہے۔ جمہورےت صرف اسی صورت مےں برقرار رہ سکتی ہے کہ قانون کی حکمرانی ہر حےثےت کے لوگوں پر برابر ہو۔ اگر قانون ختم ہو تو پھر لاقانونےت اور انتشارہی باقی رہ جاتا ہے۔ قائدَ اعظم کے ذہن مےں اےک اےسی مملکت کا تصور تھا جس مےں مکمل جمہورےت کار فرما ہو اور عوام کی حاکمےت اور اقتدارِ اعلیٰ کو عملی طور پر تسلےم کےا گےا ہو۔ اےک اےسی مملکت جس مےں ہر شخص کو مسرت اور خوشحالی حاصل کرنے کے ےکساں مواقع مےسر ہوں اور ہر شخص اپنی بساط کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکے۔ اےک اےسی مملکت جس مےں قائدِ اعظم کے اپنے الفاظ مےں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو آزادی سے پروان چڑھنے کا موقع ملے۔ اگر چہ آئےن مےں جمہوری دفعات شامل کر دی گئی ہےں تاہم ان مےں ابھی تک صحےح جمہوری روح پےدا نہےں ہوئی۔ہم نے افراد اور جماعتوں کے جوڑ توڑ اور سازشوں کا تماشا ضرور دےکھا لےکن صحےح اور مکمل جمہورےت کو کارفرما دےکھنے کے متعلق ان کی آرزو پوری نہیں ہوئی۔ 1947ءمےں قےامِ پاکستان کے بعد سے آج تک کئی واقعات رونما ہوئے اور کئی ایسی امیدیں، تمنائیں اور توقعات پوری نہ ہوئےں جن کا خواب قائدِ اعظم اور علامہ اقبال نے دےکھا تھا۔ ان تمام سالوں مےں کئی اےسی باتےں ہوئیں جو ہمارے لئے ماےوسی کا باعث ہےں۔
تحرےکِ پاکستان اور قائدِ اعظم کی قےادت نے مسلمانوں کو منظم اور متحد کےا وہ اےک بڑا واضح فکری طرےقہ تھا اس کی بنےاد ہماری وطنےت تھی جس کی بنےاد اسلام ہے مگر اس کا طرےقہ حصولِ ابتداءسے جمہوری تھا۔ قائدِ اعظم نے شروع سے لے کر آخر تک پاکستان کے بنانے میں جو کٹھن مرحلے آئے ان میں کوئی اےک قدم بھی اےسا نہےں اٹھاےا جس مےں انہوں نے جمہوری طرےقے سے تمام قوم کو قائل نہ کےا ہو۔ اس لحاظ سے جمہورےت پاکستان کی بنےاد ہے کےونکہ اس کو حاصل کرنے کا طرےقہ بھی جمہوری تھا۔ اس لئے اگر ہم اپنی رواےات، انفرادےت، تشخص، اخلاق و روحانی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے تحرےکِ پاکستان کے قائدےن کے خوابوں کی تعبےر چاہتے ہےں تو ہمےں اس ملک کو اےسے طرےقوں اور ذرائع سے چلانے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے پاکستان حاصل ہوا تھا۔ وہ طرےقے عوام کی مرضی اور تعاون کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ملکی نظم و نسق چلانا ہے کیونکہ تارےخ کی رواےت اور قائدِ اعظم کا ورثہ بھی ےہی ہے۔ پاکستان کے قےام کی پہلی سالگرہ کی تقرےبات مےں قائد اعظم اپنی علالت کی وجہ سے شرکت سے معذور تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس موقع پر قوم کے نام اپنے پےغام مےں فرماےا کہ ” ےاد رکھےے پاکستان کا قےام اےک اےسی حقےقت ہے جس کی دنےا مےں کوئی مثال نہےں ملتی، مجھے اپنے عوام پر اعتماد ہے۔ ہمارے دشمن ببانگِ دہل ےہ کہتے پھرتے ہےں کہ پاکستان دےوالےہ ہو جائے گا اور پاکستان کی اقتصادی بد حالی سے ان کے دل کی کلی کھل اٹھے گی۔ لےکن اگر ہم اپنے حالات کا مشاہدہ کرتے ہےں تو قائد نے جو کہا تھا ہم اس کے مخالف سمت مےں گامزن ہےں۔ قائد نے ہر ادارے کو اپنے متعین کردہ حدود کی پاسداری کرنے کا درس دےا تھا۔ جس کو سب بھولے ہوئے ہےں۔ جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اسے نظر انداز کر کے اپنی مرضی اور مفاد کے معاملات مےں دخل انداز ہے۔
آج ہمارے اربابِ اختےار اس حقیقت کو بھولنے کی کوشش کر رہے ہےں کہ شروع سے لے کر آخر تک ہندووں اور انگرےزوں نے اپنے مقاصد کے لئے قےامِ پاکستان کی پوری مخالفت کی۔ پاکستان کی مخالفت نہ صرف ہندوو¿ں نے بلکہ انگرےز کے ہر طبقے نے کی اور ماو¿نٹ بےٹن کو تو ےہاں بھےجا ہی اس لئے گےا تھا کہ وہ ہندوستان کو کبھی تقسےم نہےں ہونے دے گا اور اس کا خصوصی مشےر پی وی مےنن نے نہرو سے خفےہ ملاقاتےں کےں۔ قائدِ اعظم کی قیادت نے ہندو اور انگرےز کی مشترکہ سازشوں کو ناکام بنا دےا اس لئے ہندو اور انگریزکی مشترکہ مخالفت کے باوجود کسی قوم نے آزادی حاصل کی تو وہ صرف برِ صغےر کے مسلمان ہےں جنہوں نے اپنی ہمت اور جرا¿ت سے آزادی حاصل کی۔ لےکن آج ہمارے کرتا دھرتا انہی اغیار کے آلہ کار بنے ہوئے ہےں اور وطنِ عزیز کی نہ صرف ساکھ بلکہ بنےادوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔