بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا یہ تسلیم کرنا کہ موجودہ حکومت نے دیوالیہ ہوتی معیشت کو سنبھال لیا ہے نہ صرف میاں شہباز شریف حکومت کی کامیابی ہے تاہم بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا معیشت مستحکم ہونے سے دیوالیہ ہونے سے بچ گئی ہے لیکن ترقی نہیں ہوئی۔ میں نے اپنے کالم کی ابتداءعمران خان کے اس اعتراف سے اس لئے کی ہے کہ موجودہ میاں شہباز شریف حکومت جس تندہی سے ملکی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے پر لگی ہوئی ہے اور کاروباری حالات نسبتاً بہتر ہورہے ہیں اس کا اعتراف موجودہ حکومت کے سب سے بڑے مخالف کی زبان سے ہونا میاں شہباز شریف حکومت کو مزید مستحکم بناتا ہے۔ دنیا بھر میں نئے سال کی آمد اور نئی ترجیحات پر عملدرآمد کا عزم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی مارکیٹوں کی غیر یقینی صورتحال سے بچانے کے لیے اقتصادی سرگرمیوں کو مختلف شعبوں بشمول ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی، زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور مینوفیکچرنگ میں متنوع بنانا ضروری ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو عالمی معیشت کی پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہوئے، معیشت کی متنوع بنانے کی حکمت عملی پائیدار ترقی اور لچک کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے، آج کی باہمی جڑی ہوئی دنیا میں معیشتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ حکومت ایسے تمام معاملات پر نظر ضرور رکھے ہوئے ہے لیکن کہیں نہ کہیں خامی ضرورہے جس کی وجہ سے حکومت کو معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کئے گئے اقدامات کے زائد فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے۔ بعض ماہرین اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے ہم مخصوص صنعتوں میں اقتصادی کساد بازاری سے جڑے خطرات کو کم کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ تنوع اختراع اور کاروباری رجحانات کو فروغ دیتا ہے، مختلف صنعتوں کو فروغ دینے سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ تخلیقی سوچ اور لچک کا بھی کلچر پروان چڑھتا ہے۔ ہمارے حکمران ایک مضبوط اور لچکدار معیشت بنا سکتے ہیں جو جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرے اور پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کو فروغ دے، یہ لچک
پاکستان کو بین الاقوامی تجارت میں ایک مستحکم مقام فراہم کرے گی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے گی، اس کے علاوہ تنوع علاقائی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف شعبوں میں حکمت عملی سے سرمایہ کاری کر کے ہم شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان اقتصادی تفاوت کو ختم کر سکتے ہیں۔موجودہ حکومت کی جانب سے معاشی صورتحال مضبوط بنانے کیلئے جو کوششیں کی گئیں اس کا اعتراف بزنس کمیونٹی کے وہ لیڈران بھی کرنے لگے ہیں جو اس سے قبل معیشت کو ناکام قرار دے رہے تھے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے دورے میں سابق نگراں وزیراعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑکی موجودگی میں کاروباری برادری کے قائد اور یونائٹیڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان کے حالات اب بہتر ہورہے ہیں اور وہ پاکستان کے نوجوانوں کہہ رہے تھے کہ نوجوان اپنے مستقبل سے بالکل نہ گھبرائیں، نوجوانوں کا مستقبل تابناک ہے کیو نکہ پاکستان کے معاشی حالات اب سدھر رہے ہیں، اب بجلی انڈسٹری کیلئے9سینٹ ہونے جارہی ہے، سال 2025 میں ملک میں نئی صنعتیں لگیں گی جس سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے، ہم نے ڈسٹرکٹ اکانومی کو درست کرنا ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی اب مزید کم ہورہی ہے، نومبر2024 میں سی پی آئی 4.9فیصدرہنے کا مطلب یہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے اور یہ کمی بینک مارک اپ ریٹ کو دوبارہ سنگل ڈیجٹ میں لانے میں مدد دے گی۔ کئی مزید بزنس لیڈرز کا بھی معاشی مضبوطی کیلئے دیا گیا بیان میاں شہبازشریف حکومت کیلئے ٹانک کا کام کرسکتا ہے اورمزید قوت کے ساتھ ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جاسکتے ہیں۔میں اس کالم میں مختصر تذکرہ وزیر خزانہ محمداورنگزیب اور چیئرمین ایف بی آر راشدمحمودلنگڑیال نے ٹیکسز کی وصولی بہتر بنانے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں اورآمدنی اور کھپت کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے کام جاری ہے جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے تو واضح کردیا ہے کہ اب ٹیکس نہ دینے و الا بچ نہیں سکے گا،چیئرمین ایف بی آر کا اگر یہ صرف بیان ہے تو ہم بھی درگزر کرکے آگے کی جانب دیکھتے ہیں لیکن اگر حقائق پر مبنی ہے تو پھر انہیں ایف بی آر کے سسٹم کو درست اور سخت کرنا ہوگا تاکہ ٹیکس کی وصولی کا نظام نہ صرف بہتر ہو بلکہ ٹیکس کی وصولی بھی بڑھ سکے۔ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری بھی اب بڑھنے کے امکانات واضح ہورہے ہیں،تاریخی بلندیوں کو چھونے والی پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں غیرملکی سرمایہ کار فوائد اٹھانے کیلئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹی کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تعاون سے ای وی سیکٹر میں چین کی سرمایہ کاری میں دلچسپی نظر آ رہی ہے اور اس سلسلے میں چین کی کمپنی اے ڈی ایم گروپ نے پاکستان میں 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے،اس منصوبے کے تحت پاکستان میں 3 ہزارسے زائد الیکٹرک وہیکل (ای وی) چارجنگ اسٹیشنز نصب کیے جائیں گے۔ چینی کمپنی کو پاکستان لانے میں معروف بزنس مین،ملک گروپ کے سربراہ اورایف پی سی سی آئی کی انرجی اسٹینڈنگ کمیٹی کے کنوینر ملک خدا بخش کی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے جنہوں نے بتایا کہ ابتداءمیں ای وی اسٹیشنز لگانے کیلئے 90ملین ڈالرکی سرمایہ کاری ہو گی جبکہ فروری2025میں مینوفیکچرنگ پر 250ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، الیکٹرک چارجنگ وہیکل (EV) اسٹیشنزکے قیام سے نہ صرف پاکستان میں فیول کی درآمد میں کمی ہوگی اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کی بھی بچت ہوگی جبکہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ ہوگا،سندھ میں ایک ہزار، پنجاب میں 1500 اور خیبرپختونخوا و بلوچستان میں 750 اسٹیشنز لگائے جائیں گے،الیکٹرک گاڑیاں ایک مرتبہ چارج کرنے پر 300 کلومیٹر تک سفر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوں گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال کاربن کے اخراج میں کمی اور ایندھن پر انحصار کم کرنے میں معاون ہوگا۔ گرین انرجی اہداف کے مطابق پاکستان ای وی مینوفیکچرنگ اور انفرا اسٹرکچر کا علاقائی مرکز بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ تمام ترکوششیں ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ہیں اور اگر ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو چھوڑ کر ملک کے بہتر مفاد میں کام کیا جائے تو پاکستان کی معیشت ایک بار پھرمضبوط سے مضبوط تر ہوسکتی ہے۔