گزشتہ دنوں ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں مجھے بطور مہمان دعوت کی گئی۔ شرکا سے مجھے یونانی اساطیر کے حوالے سے بات کرنا تھی۔ کسی ظالم نے وہاں لگائے جانے والے فلیکس پر میرے تعارف میں موٹیویشنل سپیکر بھی لکھا ہوا تھا۔ پروگرام کے ماحول سے غافل میں مجمع میں اس نا عاقبت اندیش کو ڈھونڈ رہا تھا جس نے میرے نام کے ساتھ موٹیویشنل سپیکر لکھوایا تھا۔میں نے دائیں بائیں بیٹھے احباب سے پرنٹنگ کروانے والی نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں دریافت کیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔کچھ دیر صبر کرنے کے بعد مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری سمجھی کہ موٹیویشنل سپیکر نہیں ہوں نہ ہی ہونے کا اہل ہوں لہذا یہ لقب واپس لیتے ہوئے کسی اہل شخص کے سپرد کیا جائے۔میں نے گزارش کی کہ موٹیویشنل سپیکر ہونے کے لیے جو میرٹ درکار ہے میں اس پر پورا نہیں اترتا۔ مثلاً ایک موٹیویشنل سپیکر کو vegetarian None ہونا چاہیے اور کھانے میں دماغ کا اس کی مرغوب ترین غذا ہونی چاہیے۔ دوسری قابلیت یہ ہے کہ ایک اچھے اور سچے موٹیویشنل سپیکر کو بے روزگار ہونا چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ اسے کبھی کہیں باقاعدہ روزگار مل گیا تو نہ آواز میں سوز باقی رہے گا نہ ساز اور نہ ہی کوئی بد دعا کارگر ہو گی۔ میرٹ کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر اس نے کبھی کوئی کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی ہو تو ابتدا ہی میں کسی غریب کی طوفان میں گھری ہوئی جھونپڑی کی مانند کاروبار اجڑ چکا ہو۔ ایسی صورت میں ہی اجڑے ہوئے دیار سے آزمودہ کاروباری نسخے برآمد کیے جا سکتے ہیں اور تحفتاً روشن مستقبل کے متلاشی تمام افراد میں با آسانی تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ موٹیویشنل سپیکر کے لیے ایک آدھ عشق میں ناکامی بھی لازمی ہے۔ میں اسے کافی نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں ایک منجھے ہوئے موٹیویشنل سپیکر کے لیے لازمی ہے کہ وہ یکطرفہ عشق میں ہمیشہ ناکام ہی نہ رہا ہو بلکہ ساری زندگی کسی کو پسند بھی نہ آیا ہو۔ یہ خصوصیت اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدگی پیدا کرتی ہے اور خیالات کو بھٹکنے سے بچائے رکھتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں پائے جانے والے اکثر موٹیویشنل سپیکر کثیرا لعیال ہیں۔ ایک آدھ درجن بچوں کی کفالت دل و دماغ کو ایسا تازہ کیے رکھتی ہے کہ دن بھر کسی غفلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غفلت تو دور کی بات رہی نیند تک پوری ہونے کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ کبھی اپنے شعبے کے علاو¿ہ ہر شعبے اور میدان کے ماہر ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک معروف ڈاکٹر صاحب جو اچانک موٹیویشنل سپیکر بھی ہیں طب سے زیادہ پراپرٹی ڈیلنگ، یونانی دواو¿ں کے استعمال اور مزدوروں اور کارکنوں کی ٹریننگ کے حوالے سے سرگرم نظر آتے ہیں۔
میرے بہت سے کاہل اور سست رفتار دوست جو محض کسی ایک ہی شعبے کے ماہر ہیں موٹیویشنل سپیکرز پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ "کارپوریٹ سیکٹر” کی پیدوار ہیں اور ان کا مقصد مزدوروں اور کارکنوں میں ہوا بھر کر ان سے ان کے وسائل اور استعداد سے کہیں زیادہ کام لینا ہے۔ اندازہ کیجیے یہ ظالم دوست پازیٹیوٹی اور انرجی سے بھرپور موٹیویشنل سپیکرز پر کس قدر بے رحم تنقیص کرتے ہیں۔ ایک واپڈا ملازم دوست کا تو یہ تک کہنا ہے کہ ہمیں ملک بھر کے موٹیویشنل سپیکرز پکڑ کر انرجی کے وسائل پورے کرنے میں صرف کرنے چاہییں۔ میں اس قسم کے مشوروں اور تجاویز سے تو قطعاً متفق نہیں ہوں البتہ اس ضمن میں ایک معتدل اور عاجزانہ رائے ضرور رکھتا ہوں کہ ان تمام یارانِ طلسمات کو انرجی کے وسائل تلاش کرنے پر ہی لگا دیا جائے تو ملک و قوم کا کچھ نہ کچھ فایدہ ضرور ہو گا۔
جدید موٹیویشنل سپیکنگ نے کئی شعبوں کے ناکام افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ان میں بعض زیرِ علاج ماہرینِ نفسیات، بزنس مینجمنٹ کے ناکام کاروباری افراد، پرانے عاشق، انٹرپنیور، خطیب حضرات اور واعظین شامل ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والے انٹرپنیور ہیں۔ میں نے انھیں اچار ڈالنے کی ترکیبوں، مسواک تراشنے کے منصوبوں اور غلیل بنا کر فروخت کرنے جیسے نایاب نسخوں سے مسلح دیکھا ہے۔ کئی افراد کی درو دیوار ہلا دینے والی تقریر سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مشرق و مغرب کی برق رفتار ترقی کی داستانوں سے لیس یہ حکما صرف اس لیے کوئی معقول اور قابلِ عمل نسخہ پیش نہیں کرتے کہ کہیں زمانہ مادہ پرستی میں پڑ کر مزید بے رہروی کا شکار نہ ہو جائے۔ آخر ایک میٹریلسٹک کلچر میں کوئی زیادہ خوش کیسے رہ سکتا ہے؟ بلکہ اس بات کی وضاحت ہمارے محلے کے ایک خطیب صاحب خوب کیا کرتے تھے۔ وہ ہر ترکیب کی ناکامی پر اطمینان سے کہا کرتے تھے کہ اگر انسان کو سبھی کچھ مل جائے تو وہ اپنے رب سے دور ہوجاتا ہے۔ اسکے بر عکس ان کے خیال میں ان تھک محنت اور مستقل ناکامی انسان کو کم از کم قبر سے قریب کر دیتی ہے۔ یوں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی تیاری بھی چلتی رہتی ہے۔
یہ ایسے ہی انرجی اور موٹیویشن سے بھرپور طلسماتی سپیکرز کا کمال ہے کہ ہمارے وہ شاہین جو میٹرک سے بی۔اے تک بڑی مشکل سے پاس ہوتے ہیں فوراً مقابلے کے امتحان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ ان انرجی سے بھرپور افراد سے جان چھڑانے کےلئے حکومت کو سکریننگ ٹیسٹ رکھنا پڑا جو امید ہے کسی نہ کسی حد تک موٹیویشن پر قابو پانے میں کارگر ثابت ہو گا۔ جہاں آج کل میری رہائش ہے اس محلے میں بھی دو چار موٹیویشنل سپیکرز پائے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں متاثر کن بات یہ ہے کہ گفتگو بڑے تواتر سے اور ٹھوس انداز میں کرتے ہیں۔کمیونیکیشن میں ایسی مہارت حاصل ہے کہ بغیر سانس لیے کئی گھنٹے بول سکتے ہیں۔ انھوں نے نیپولین، مارکونی، گولڈ سمتھ، تھامس ایڈیسن، مغلِ اعظم اور عمرو عیار کی رنگ برنگی کہانیاں یاد کی ہوئی ہیں جو ضرورت پڑنے پر نام بدل کر بھی سنائی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی کے ایسے ایسے ماڈل پیش کیے ہیں کہ ان سے دنیا کا ہر فلسفہ اور ہر نظریہ برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ایک نوجوان موٹیویشنل ٹرینر نے لیلیٰ مجنوں کی کہانی سے مجنوں کے مارکیٹنگ گٹس نکال کر بتایا کہ مجنوں نے صرف صحرا نوردی نہیں کی۔ اس نے ورزش کی اور ٹورازم کو پروموٹ کیا۔ ایک نپولین مزاج موٹیویشنل ٹرینر نے کئی بار طلاق کے باوجود ہار نہیں مانی۔ موصوف کی زندگی میں ایسی رسا کشی کا عالم ہے کہ پچھلے تمام سسرالیوں سے تھانہ کچہری چلتی ہے۔ وہ سب ان کا دامن اور یہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے۔ خاندانی جاہ و حشمت کے اظہار کےلئے اکثر فرعون کے کئی واقعات اجداد کے نام سے دیتے ہیں۔
خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں موٹیویشنل سپیکرز اور ٹرینرز کی کمی نہیں ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان کی صلاحیتوں سے کیسے فایدہ اٹھاتی ہے۔ اس حوالے سے خاکسار کے ذہن میں چند تجاویز ضرور ہیں۔ ملک میں پائے جانے والے تمام موٹیویشنل سپیکرز کا ہر مہینے دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔ اس سے ہسپتالوں میں تجربات کےلئے نئے وسائل پیدا ہونگے۔ ایسے تمام ادارے جو مسلسل خسارے میں ہیں اور آئندہ چند برسوں میں انھیں بند کرنے کی پالیسی تیار کی جا رہی ہے وہاں دو چار موٹیویشنل سپیکرز بھرتی کیے جائیں جو یہی کام چند مہینوں یا چند گھنٹوں میں مکمل کر دیں گے۔تمام دشمن ممالک میں کچھ موٹیویشنل سپیکرز اور ٹرینرز بھیجے جائیں جو ان کے دفتروں اور کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں میں ہوا بھر کر انھیں زمین سے تھوڑا اوپر اٹھا دیں۔