قائداعظم کا گمشدہ پاکستان

بانی پاکستان کے یوم پیدائش پر مجھے نواسہ اقبال اور پاکستان کے ثقافتی ورثے کے بہت بڑے محافظ میاں یوسف صلاح الدین کا ایک واقعہ یاد آگیا،ایک زمانے میں وہ سگریٹ بہت پیتے تھے ،اْن کی والدہ اْن کی اس عادت سے بہت تنگ تھیں ،وہ اْنہیں سگریٹ پینے سے سختی سے منع کرتیں مگر وہ اپنی اس عادت سے نجات حاصل نہیں کر پا رہے تھے ،ایک بار قائداعظم کی صاحبزادی دینا وادیا حویلی بارودخانہ لاہور تشریف آئیں ،اْن سے گفتگو کے دوران میاں یوسف صلاح الدین نے سگریٹ لگایا وہ اْن سے کہنے لگیں’’آپ سگریٹ نہ پیا کریں‘‘ ،میاں یوسف صلاح الدین نے اْن سے پوچھا ’’یہ آپ کی خواہش ہے یا حکم ہے ؟ اْنہوں نے فرمایا ’’آپ اسے میرا حکم سمجھ لیں‘‘ ،اْس کے بعد یوسف صلاح الدین نے سگریٹ پینے چھوڑ دئیے ،اْن کی والدہ کو جب پتہ چلا اْنہوں نے شکوہ کیا کہ’’تم نے میرے کہنے پر تو سگریٹ نہیں چھوڑے تھے‘‘ ،یوسف صلاح الدین بولے ’’آپ علامہ اقبال کی بیٹی ہیں ،وہ قائداعظم کی بیٹی ہیں‘‘ ، گزشتہ دنوں جناب عطاالحق قاسمی اور میرے اعزاز میں حویلی بارودخانہ میں اپنی جانب سے دئیے گئے ایک ظہرانے میں میاں یوسف صلاح الدین نے یہ واقعہ سْنایا یقین کریں میرا جی چاہا قائداعظم کا اس قدر احترام کرنے والے اس شخص کے قدموں میں بیٹھ جاؤں ،ایسا احترام اقبال کا نواسہ ہی کرسکتا ہے ،ہم نے تو قائداعظم کے’’احترام‘‘ کو اپنے دفتروں اور کرنسی نوٹوں پر اْن کی تصویریں چھاپنے یا لگانے تک محدود کر دیاہے ،اس ’’احترام‘‘ کا عالم یہ ہے دفتروں میں اْوپر قائداعظم کی تصویر لگی ہوتی ہے نیچے قائداعظم کے افکار سے بالکل مختلف اعمال کا ہم مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں ،اپنے دفاتر میں یہ تصویریں ہم شاید قائداعظم کی روح کو تکلیف پہنچانے کے لئے لگاتے ہیں کہ دیکھئے آپ نے پاکستان کن عظیم مقاصد کے لئے بنایا تھا اورہم کون کون سے غلیظ مقاصد حاصل کر کے پاکستان کو برباد کر رہے ہیں ،میرا بس چلے تو کرنسی نوٹوں اور تمام سرکاری دفاتر خصوصاً اپنی عدالتوں سے قائداعظم کی تصویریں فوری طور پر ہٹوا دْوں تاکہ قائداعظم کی روح کو سکون مل سکے یا پھر اپنے سرکاری نظام کو قائداعظم کی سوچ اور اعمال کے مطابق بنا دْوں ،جو ظاہر ہے میں کیا آسمان سے کوئی فرشتہ بھی اْتر آئے وہ بھی شاید نہیں بنا سکتا ،ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں نے تباہی ہی اتنی کر دی ہے کہ چند جرنیلوں ،ججوں یا سیاستدانوں کے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا اب ممکن ہی نہیں رہا ،کتنے دْکھ کی بات ہے بانی پاکستان کے اْن تمام اعلیٰ و ارفع اعمال و اقوال کو مکمل طور پر ہم نے فراموش کر دیا جنہیں حقیقی معنوں میں ہم اگر اہمیت دیتے آج پاکستان کی یہ بدحالی ہمارا مقدر نہ بنتی ،ہمارے بہت سے ’’اصلی حکمرانوں’’ کو قائداعظم سے ویسے ہی چڑ ھے کہ ایک سیاستدان نے پاکستان بنانے کا اتنا بڑا کارنامہ ہمارے بغیر یاہم سے پوچھے بغیر کرنے کی جْرأت کیسے کر لی ؟ جہاں تک ہمارے ’’سیاسی حکمرانوں‘‘ کا تعلق ہے وہ قائداعظم کا زیادہ ذکر کرنا یا اْن کی خدمات کو زیادہ سراہنا اس لئے پسند نہیں کرتے کہیں لوگ اْن سے یہ سوال ہی نہ کرنا شروع کر دیں’’حضور آپ کا اپنا کون سا عمل قائداعظم کے اْصولوں یا کردار کے عین مطابق ہے ؟ اگلے روز ایک جاہل و بدبخت وفاقی وزیر فرما رہے تھے’’قائداعظم اس لئے بھی ایک بڑے راہنما تھے کہ اْن کا اور میاں محمد نواز شریف کا یوم پیدائش ایک ہے‘‘ ،قائد اعظم نے ایسے پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا تھا جہاں جس کے جو منہ میں آئے اول فول بکتا چلا جائے ،شْکر ہے قائداعظم اور میاں محمد نواز شریف کا یوم وفات ایک نہیں ہے ورنہ شریف فیملی اتنا مالدار ہونے کا شرف کبھی حاصل نہ کر پاتی ؟ اگلے روز ایک نامور وکیل صاحب ایک تعلیمی ادارے کی قائداعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں فرما رہے تھے’’ہمیں فخرہے ہمارا تعلق قائداعظم کے پیشے سے ہے‘‘ ،میں سوچ رہا تھا کاش میں بھی اس تقریب میں موجود ہوتا اور وکیل صاحب کی خدمت میں عرض کرتا’’آپ کو معلوم ہے قائداعظم ایسے کسی ملزم کی وکالت کرنے سے معذرت کر لیتے تھے جس کے بارے میں ہلکا سا بھی اْنہیں شبہ ہوتا تھا کہ جْرم کا ارتکاب واقعی اْس نے کیا ہے ؟ بعض اوقات وہ کسی غلط فہمی کے نتیجے میں ایسے کسی ملزم سے فیس وصول کر بھی لیتے حقائق سامنے آنے پر اْس کی فیس واپس کر کے اْس کا کیس لڑنے سے انکار کر دیتے تھے ،اْن کی عظمتوں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن سے ہمارے کچھ وکیلوں نے صرف اس لئے منہ موڑا ہوا ہے اگر ایسی مثالیں وہ بھی قائم کرنا شروع کر دیں گے بیچارے بھوکے مر جائیں گے ،گزشتہ روز میں نے سینٹرل ماڈل سکول کی ایک تقریب میں عرض کیا’’ اگر ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے اساتذہ اور والدین اپنے بچوں کو اپنے اصل ہیروز قائداعظم اور اقبال کے بارے میں نہیں بتائیں گے یہ معاشرہ اخلاقی لحاظ سے مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا ،جو اس صورت میں ہو بھی چکا ہے اب ہمارے بچوں کے ہیروز ڈکی بھائی ،پتلْو ،اور رجب بٹ ہیں ،کل میں ڈی ایچ اے میں اپنے کسی عزیز سے ملنے گیا ،کل چونکہ قائداعظم کا یوم پیدائش تھا اس حوالے سے اْن کے بچے سے میں نے کہا ’’قائداعظم مسلم اْمہ کے بہت بڑے لیڈر تھے‘‘ اْس بچے نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور مجھ سے پوچھا ’’انکل وہ ڈکی بھائی سے زیادہ بڑے لیڈر تھے ؟‘‘ ،میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،اب اس موقع پر ایک اور واقعہ بھی آپ کو میں سْنا دْوں ،پچھلے دنوں یوٹیوبر رجب بٹ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی سلسلے میں مجھ سے ملنے میرے گھر آیا ،اْس کے بعد بیشمار دوستوں عزیزوں اور اْن کے بچوں نے شکایتوں کے انبار لگا دئیے کہ رجب بٹ کی آمد پر میں نے اْنہیں کیوں نہیں بْلایا تھا ؟ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ گھٹیا شہرت اور دولت اب عزت کے مقابلے میں بہت آگے نکل چکی ہیں ،میں اکثر یہ سوچتا ہوں شْکرہے قائداعظم اس دْنیا سے رخصت ہوگئے ،وہ اگر زندہ ہوتے اور عمران خان ،زرداری یا میاں محمد نواز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑتے بْری طرح ہار جاتے ،کچھ یوٹیوبرز کو لگام دینے کے لئے اس نکمی سرکار نے کوئی قانون سازی نہ کی یا کوئی سخت پالیسی اگر نہ بنائی ایک وقت آئے گا جب ہم اپنے بچوں سے پوچھیں گے کہ پاکستان کس نے بنایا تھا ؟ وہ ڈکی بھائی ،پتلو یا رجب بٹ کا نام لیں گے یا اپنی اْن سسٹرالوجی کا نام لیں گے جو اصل میں بے حیالوجی ہیں ،بیالوجی کے بارے میں ہمارے بچوں کو کچھ معلوم ہو نہ ہو ،سسٹرالوجی کا سب پتہ ہے۔