وزیر عظم میاں محمد شہباز شریف (پیدائش 23 ستمبر 1951ء ) جو 8 جون 2013ء سے 8 جون 2018ء تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے اور سابقہ قائد حزب اختلاف، ایوان زیریں پاکستان۔ سیاسی طور پر ان کا تعلق شریف خاندان سے ہے، میاں محمد شریف (بانی اتفاق گروپ) ان کے والد اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کے بھائی ہیں۔ شہباز شریف 1988ء میں پنجاب صوبائی اسمبلی اور 1990ء میں قومی اسمبلی پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1993ء میں پھر پنجاب صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور قائد حزب اختلاف نامزد ہوئے۔ 1997ء تیسری بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے، شہباز شریف نے 20 فروری 1997ء کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملک میں سیاسی کشمکش رہی ، معاشی اور سماجی بد حالی دیکھنے کو ملی ان حالات میں میاں صاحب پی ڈی ایم اے کی جانب سے وزیر اعظم بنے اور بعد ازاں قومی انتخابات کے نتیجے میں اب پھر وزیر اعظم کا عہدہ بحسن خوبی نبھا رہے ہیں۔ گو کہ میاں شہباز شریف ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں حکومتی امور کا نہ صرف وسیع تجربہ رکھتے ہیں بلکہ بہترین ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں ان کے وزرات اعلیٰ آخری دور اور حکومت کے آخری برسوں میں صوبہ پنجاب، تعلیم صحت، اور دیگر معاملات میں بہترین کارکردگی دکھا رہا تھا ،ان کے جانے کے بعد آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں کہیں کوئی اینٹ لگی نہ کوئی ترقیاتی کام ہوا بلکہ جو ادارے بہترین کام کر رہے تھے وہ سب نکمے ہو گئے تعلیم اور صحت کے شعبوں کا تو بیڑا غرق ہوا سرکاری محکموں میں تبادلوں کے جھکڑوں نے ان کی کارکردگی بہت بری طرح متاثر کی۔
میاں شہباز شریف کو سیاست اور حکومت کا کافی تجربہ ہے۔ وہ کئی سال اقتصادی اور سیاسی طور پر طاقت ور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ 1988 میں وہ صوبائی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انہوں نے کئی بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے۔ لاہور میں پہلی میٹرو بس سروس بھی انہوں نے ہی متعارف کرائی تھی۔شہباز شریف کی شہرت ایک اچھے منتظم کی ہے وہ کام پر یقین رکھتے ہیں اور محاذ آرائی سے گریز کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ شہباز شریف اہداف کا تعین کرکے سخت محنت سے کام کرکے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے ذریعے عملی نتائج دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے برعکس، جن کے پاکستان کی طاقت ور فوج کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے، شہباز شریف کا رویہ قدرے لچک دار ہے۔ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ معاہدے کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں اور راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان تعاون کے حامی ہیں۔ جسے خوش آئند قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ ملک اور قوم کے لئے یہی طرز عمل اور رویہ بہتر ہے۔
انہوں نے اس وقت وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے جب انہیں سست روی کا شکار معیشت لا اینڈ کی ابتر صورت حال اور جان توڑ مہنگائی ، دوست ملکوں کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات اور تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں سے نمٹنے جیسے کئی مختلف چینلجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پہلی دفعہ وزیراعظم بننے والے شہباز شریف اس سے پہلے ماضی میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دوران براہ راست انتظامی سیکرٹریوں کے ذریعے خود اپنی نگرانی میں کام کراتے تھے۔ان پر ایک طرف عوامی مسائل کے حل کرنے کا دباؤ ہے تو دوسری طرف انہیں پاکستان تحریک انصاف کی سخت مخالفت کا سامنا بھی ہے جیسے مسائل انہیں ساتھ ہی ملے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کی وسیع البنیاد حکومت قائم ہوئی ہے۔ شہباز شریف کو سب کو اکاموڈیٹ کرنا اور ساتھ لیکر چلنا ہے۔ انہوں نے ابھی تک سیاسی مسائل کا حل سیاسی طور پر نکالنے کی بہترین کوششیں کی ہیں۔’اس میں کوئی شک نہیں کہ شہبازشریف کو بڑے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان کا ماضی گواہ ہے کہ وہ ایسے حالات کو بہتر بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ان کا رول بہت نمایاں تھا۔ سی پیک منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل، ڈینگی کے موثر خاتمے میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہی۔ اس لیے ان کی منتظمانہ صلاحیتوں سے ہر کوئی آگاہ ہے اور وہ ابھی تک کامیابی سے آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔
شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد کے مہینوں سے روپے کی قدر میں اضافہ اور اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار رونما شروع ہونا شروع ہو گئے ہیں جبکہ مہنگائی میں واضح کمی ہوئی ہے اور ممالک کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں بلکہ بھاری سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہے کئی نئے منصوبے شروع ہورہے ہیں ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کی کاروباری برادری شہباز حکومت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے جسے ملکی معیشت کے لئے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے ادھر انہوں نے کم سے کم تنخواہ میں بھی اضافہ کیا ہے اور ساتھ سرمایہ داروں اور تاجروں کو بھی اپنے ملازمین کی تنخواہ بڑھانے کا کہا ہے جس سے عوام الناس میں ان کی لئے خیر کے کلمات کے ساتھ نیک جذبات کا اظہار پایا جا رہا ہے۔
وہ چیلنجز کو پسند ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے کا ہنر بھی جانتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا تھا تو ان کے اپنے خاندان کے افراد نے ان کی اس بات پر مخالفت کی تھی کہ وہ اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کر کے اس تاثر کو زائل کر دیا اور بہت سے ترقیاتی کام کرا کر مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا۔ ان کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے حامی رہے ہیں۔ وہ سیاسی الجھاؤ اور محاذ آرائی کی بجائے معاشی بہتری کے لیے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی انہیں اپنے دور حکومت میں اپنے دوستوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ مخالفین کے دلوں کو نرم اور مہنگائی جیسے عفریت پر قابو پانے کے ساتھ تعلیم اور صحت کے میدان میں فوری انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گے ان دونوں شعبوں کی بہت بری حالت ہو چکی ہے، پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے اس لئے اب آگے بڑھنے کا وقت ہے ماضی کی رنجشیں تلخیاں بھلا کر ملک کو آگے لے جانے کے لئے ماہرین کی ٹیم کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔اقربا پروی سے نجات اور اہل افراد کو ذمہ داری دینے سے ہی ہم ملک کو آگے لے جا سکیں گے۔ عوام کو ساتھ ملانے کے لئے ان کی داد رسی اور عوامی میل جول ہی واحد وہ طریقہ ہے جس سے تبدیلی کے بھوت سے بھی جان چھڑائی جا سکتی ہے۔