کہتے ہیں کہ اتنا بولو کہ بول کا تول دے سکو، اتنا ظلم کرو کہ بردشت کر سکو، اتنی بات کرو کہ شرمندگی نہ ہو، اتنا دکھ دو کہ دکھ سہہ سکو…. سیاست گیری بڑا عجب کھیل۔ عروج ملے تو فرعونیت، اقتدار سے ہٹے تو زوال ہمیشہ۔ میں نہ مانوںکی زبان بولنے والے بالآخر خدائی دعویدار لیڈر نے اپنی ہار تسلیم کرنے کے ساتھ اپنی انا کو بھی تو تسکین دینا تھی۔حکومت کو ایسی دھمکی دی کہ مذاکرات کرو ورنہ سول نافرمانی کی تحریک کی کال دوں گا۔ ماضی میںکالوں کے اوپر کال، نصیب میں پھر جیل میں پڑے بانی کو اس حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا جوہمیشہ سے اس کی نظر میں چور، ڈاکو، قاتل، فراڈ، بے اختیار ملک کو لوٹنے والے جنہوں نے ملک کو تباہ کیا، جنہوں نے ملک کو بیچا، جنہوں نے ملک کو لوٹا۔ اس کے خزانے پر ڈاکہ ڈالا۔جب دیکھا کہ دال نہیں گلنے والی اچانک اب وہ سب دودھ کے دھلے ہو گئے پہلے کیا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نہیں تو کچھ نہیں۔ اب اسی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، آصف علی زرداری اچھے لگنے لگے۔اس ہاں کے ساتھ ہی عمران نے چوروں اور ڈاکوﺅں کے ساتھ مذاکرات کا ہاتھ بڑھا کر اپنی ہی بری سیاست کی نفی کر دی اورپھر ایک بڑا یو ٹرن لیتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی۔ اب مذاکرات کب ہوتے ہیں اگر حکومت مذاکرات کی میزپر آجاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب یہ فارم 47سے نکل کر فارم 45کی حکومت بن گئی ہے اور ان کے الیکشن مانتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا جہاں عمرانی سیاسی کھیل کا فاﺅل قرار دیاگیا وہاں حکومتی ایوانوں میں بھی اس تبدیلی کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں اور مذاکرات کرنے والوں کی عقل میں شاید یہ بات آ جائے کہ اب ملک کو چلنے دو۔ ریاست سے ٹکراﺅ پالیسی ختم کرواور ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ہم رہیں نہ رہیں پاکستان نے آگے بڑھنا ہے۔ اب یہ ملک عمرانی گندی سیاست، گندے سیاسی ماحول،اور ہمارے نوجوانوں میں پھیلائے گند کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سورة طہ میں ہے کہ:
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب بھی اس کی ملکیت ہے اور زمین کی تہوں کے نیچے جو کچھ ہے وہ بھی ۔(آیت6 )
اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ جب حاکمیت اس کی ہے تو پھر اس نے تم کو صرف یہ حاکمیت دی کہ اپنی قوم کے ساتھ انصاف کرو…. اور جب تم انصاف نہیں کرو گے تو میں تمہیں نیست و نابود کر دوں گا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوں گے، نہیں ہوں گے اور ان کے نتائج کیا آتے ہیں اور کیا عمران خان اپنی مذاکراتی ٹیم کو پاورز دے گا۔ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اپنائے گا یا پھریہ مذاکرات اس کی ہٹ دھرمی کاشکار ہوکر کہیں ایک رات کا مذاق نہ بن جائیں جس بات کے زیادہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔آج مذاکرات کی بات چلی ہے تو آج مجھے پاکستان میں اتحادی سیاست کے گرد نوابزادہ نصر اللہ(مرحوم) بہت یاد آ رہے ہیں۔ مرحوم کے اندر بہت خوبیاں تھیں مگر یہ خوبیاں عمران خان جیسی نہیں تھیں۔ایک نہیں وہ مذاکرات اور اتحادی سیاست اگر ہوتیں تو پھر نوابزادہ کی سیاست نہ ہوتی گو انہوں نے اپنے دور سیاست میں ہر حکومت کے بخیے ادھیڑے…. ڈگڈگی اور ڈھولکی (سیاسی) پر خوب نچایا۔ ایوب خان سے ذوالفقار علی بھٹو سے اور جنرل ضیاءکے ڈکٹیٹرانہ اقتدار کو رول کے رکھ دیا۔مگر کبھی یوٹرن نہیں لیا اچھی اپوزیشن اور اچھی سیاست کی۔
ہم خاک نشیں کوئے سیاست میں نہ آتے ۔ لیکن یہ تھی ہر دور میں حالات کی خواہش
شیکسپیئر کا کہنا ہے جو جتنی زیادہ بلندی پر کھڑے ہوتے ہیں انہیں اتنی ہی زیادہ تند و تیز آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور لاکھوں میں کوئی ایک یا دو ہی ایسے مائی کے لال ہوتے ہیں کہ جو حسن تدبیر اور استقلال سے ان آندھیوں کے منہ موڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں نوابزادہ نصر اللہ خان ایک ایسے ہی قد آور اور ذہین سیاستدان تھے کہ جن کی استقامت، جرا¿ت اور ہر قسم کی آلائشوں سے پاک و صاف سیاست نے ہمیشہ ہی آمریت کے خوفناک جبڑے توڑ کر عوامی حلقوں کو اسکے تیز دھار دانتوں میں کچلے جانے سے بچانے کا نا قابل فراموش کردار ادا کیا۔ اور اس پاداش میں انہوں نے اپنی جوانی کے بہترین ایام اور نصف سے زائد زندگی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے میں گزاری۔ا تحادی سیاست کے اس گرو نے اپنے آہنی عزم اور بہترین سیاسی صلاحیتوں کی بنا پر قیام پاکستان کے بعد کی ہر جابر اور آمر حکومتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے انہیں جھکنے اور اقتدار چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے تقریباً ہمیشہ ہی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور حکمرانوں کی جانب سے بڑے پ±رکشش عہدوں اور لالچ کو ٹھکرادیا۔ خوفناک انجام اور ہر انتظامی کار روائی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ ہی کامیاب رہے اور اچھے لیڈر کی یہی خوبی ہوتی ہے، خفیہ ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں انہیں ملک کا سب سے زیادہ خطر ناک سیاستدان قرار دیا اور خبردار کیا کہ صرف یہی ایک سیاستدان ہے جو اپنی ذہانت اور توڑ جوڑ کی بے پناہ صلاحیتوں کی بنا پر کسی وقت بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کا سبب بن سکتا ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور میں انہوں نے آمریت کے خلاف تحریک چلائی اور بالآخر حکومت کو ان کے مطالبات کے آگے خم ہونا پڑا۔ یحییٰ خان اور دوسرے ادوار حکومت میں انہوں نے اتنی قربانیوں اور جرا¿ت کا مظاہرہ کیا کہ اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ 1977ءمیں قومی اتحاد کی تحریک نفاذ نظام مصطفےٰ میں جب انہوں نے مولانا مفتی محمود مرحوم کے ساتھ مل کر لاہور میں احتجاجی جلوس کی قیادت کی تو حکومت کی طرف سے انہیں خبردار کیا گیا کہ اگر اس لائن سے آگے ایک قدم بھی اٹھایا گیا تو گولیوں سے بھون دیا جائیگا۔ ساتھ ہی پولیس کی رائفلیں لوڈ کرادی گئیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بڑے بڑے دل گردے والے ٹھٹھک کر رک گئے مگر نوابزادہ نصر اللہ خان یہ کہتے ہوئے سب سے پہلے آگے بڑھے کہ اگر اسلام کی خاطر ان کی جان چلی جائے تو سودا گھاٹے کا نہیں ۔ چنانچہ گولی چلی اور نوابزادہ کو بچاتے ہوئے دو وکلاءشہید ہوگئے اور بھی کافی خونریزی ہوئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو لاٹھی چارج کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر ان کی ثابت قدمی میں ہلکی سی بھی لغزش نہ آئی بلکہ بالآخر حکومت کو ہی ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ اس طرح اسلام آباد میں نوابزادہ اور مولا نا فضل الرحمٰن خان کو فائرنگ اور لاٹھی چارج کا محض اس لئے سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے صحابہ کرامؓ رسول کریم اور قرآن حکیم کے خلاف لکھی گئی ”شیطانی آیات“ کے مصنف ”ملعون سلمان رشدی“ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنے کا گناہ کیا تھا۔ یعنی انہوں نے ہمیشہ مثبت سیاست کی،ان کی سیاست کا بھی ایک عجیب انداز ہے اور اپنے او پر کیچڑ اچھالنے اور توہین آمیز پرو پیگنڈہ کرنے والے مخالفین کے خلاف صحیح حقائق پر مبنی تنقید کرنے سے ورکروں کو منع کیا کرتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران وہ ووٹروں سے صرف یہی کہا کرتے ہیں کہ اگر ان کا مخالف امیدوار ان سے اچھا نظر آئے تو اسے ووٹ دیں۔ میں بھی خوش اور میرا خدا بھی خوش ہوگا۔
اور آخری بات….
کاش اس دور کی سیاست کو بھی ایک نواب زادہ نصراللہ خان مل جاتے تو ہمیں کبھی مارشل لائی اور نہ دیکھنا پڑتے اور سچ حضرت باہو ؒ سرکار نے کہا کہ نہ میں تولہ نہ میں ماشا، گل رتیاں تے آئی ہو….کل عمران نے تولے ہونے کا دعویٰ کیا تھا ….پھر رتی ہوا اور اب رتی رتی ….