یونیورسٹی اور لباس!

 

Psychology of Gaze یا ”نظر کی نفسیات“ ایک ایسا علم ہے جو انسانی نظر کے رویے، توجہ اور دیکھنے کا مطالعہ کرتا ہے۔ یہ مطالعہ بنیادی طور پر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ لوگ کس طرح دیکھتے ہیں، کس چیز کو دیکھتے ہیں، کس چیز کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کس چیز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کی نظروں کا اثر دوسروں پر کیسا پڑتا ہے۔ ایک معروف مغربی یونیورسٹی میں خواتین کے لباس کے حوالے سے تحقیق کی گئی، تحقیق سے پتا چلا خواتین کا لباس نہ صرف لوگوں کے رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ خواتین کی شخصیت کے بارے تاثرات قائم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ مطالعے کے دوران دو خواتین کو ایک جیسے حالات میں مختلف لباسوں میں عوامی مقامات پر بھیجا گیا، ایک عورت نے عبایا پہنا ہوا تھا اور دوسری عورت نے جدید اور مختصر لباس۔ عبایا میں ملبوس خاتون کو زیادہ تر افراد نے احترام کی نظر سے دیکھا اور ان کا دیکھنے کا دورانیہ بھی کم رہا۔ لوگوں نے خاتون سے فاصلہ برقرار رکھا اور اس کے قریب جانے سے گریز کیا۔ جبکہ مختصر لباس والی خاتون کی طرف لوگوں نے زیادہ دیر تک دیکھا اور لوگوں کی نظروں میں زیادہ ”جانچنے اور تجسس“ کا عنصر پایا گیا۔
لباس کا تعلق محض ظاہری شکل و صورت سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی باطنی شخصیت، تہذیبی پس منظر اور دینی عقائد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسلام میں حیا کو ایمان کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے اور حیا کا واضح اظہار انسان کے لباس سے ہوتا ہے۔ جب جنت میں آدمؑ و حواؑ بے لباس ہوئے تو انہوں نے فوراً درختوں کے پتوں سے اپنے جسم کو چھپانا شروع کر دیا۔ حضرت آدم و حوا کو کسی نے بتایا نہیں تھا کہ ان کا ستر واضح ہو گیا ہے بلکہ ان کی فطرت نے انہیں اپنے جسم کو چھپانے کی طرف متوجہ کیا۔ آدم و حوا کا یہ واقعہ انسانی فطرت میں ستر اور حیا کے جذبے کی گواہی دیتا ہے۔ اسی طرح کوئی بچہ جب چار پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو سب کے سامنے بے لباس ہونے کو معیوب سمجھتا ہے، اسے بھی کسی نے بتایا نہیں ہوتا کہ تمہارا ستر عیاں ہو رہا ہے بلکہ اس کی فطرت اسے ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ شرم و حیا کا تصور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھا ہے وہ الگ بات ہے کہ آج ہماری فطرت مسخ ہو چکی ہے اور ہم بطور فخر جسم کی نمائش کرتے اور اسے ”فن“ سمجھتے ہیں۔ فطرت مسخ ہونے سے ہمارا تصور حسن تک بدل گیا ہے اور جو جتنا برہنہ ہوتا ہے اسے اتنا خوبصورت سمجھا جاتا ہے۔ جو جتنا ”شارٹ“ لباس پہنتا ہے اسے اتنا حسین تصور کیا جاتا ہے۔ یہ عمل مذہب کے خلاف تو ہے ہی لیکن بنیادی انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لباس اور پردے کے حوالے سے خواتین کو واضح ہدایات دی ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت اسمائؓ بنت ابی بکر باریک کپڑوں میں آپﷺ کے سامنے تشریف لائیں تو آپ نے فرمایا: ”اے اسمائؓ! جب عورت بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔“ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا ان میں سے ایک وہ خواتین ہیں جو لباس پہن کر بھی ننگی ہیں (یعنی تنگ اور باریک لباس پہنتی ہیں) وہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور تک آ رہی ہو گی۔“
جب ہم تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں طالبات کے لباس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو اس کا مقصد کسی طبقے کو نشانہ بنانا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں ان اقدار کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جو نہ صرف ہماری دینی تعلیمات کا حصہ ہیں بلکہ بنیادی انسانی فطرت کا بھی تقاضا ہیں۔ آج کل یونیورسٹیز میں مغربی طرزِ لباس اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ایک مسلمان کےلئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کسی مغربی ملک کی جامعہ میں کھڑا ہے یا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہے۔ جامعات میں طالبات کا غیر مناسب لباس نہ صرف ان کی اپنی شخصیت کو منفی طور پر پیش کرتا ہے بلکہ تعلیمی ماحول میں غیر ضروری تفریح اور غیر اخلاقی رجحانات کو بھی فروغ دیتا ہے۔ باریک، تنگ یا غیر مناسب لباس نہ صرف طالبات کو غیر ضروری توجہ کا مرکز بناتا ہے بلکہ بسا اوقات ان کی عزت اور تحفظ کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری مڈل کلاس ایلیٹ کلاس کو فالو کرتی ہے اور ایلیٹ کلاس مغرب کو فالو کرتی ہے۔ مغرب میں جو بھی نیا فیشن اور رجحان سامنے آتا ہے اسے ایلیٹ کلاس کے ذریعے فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے اور فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ چیزیں مڈل کلاس میں فروغ پانا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس طرح نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ ترقی اور ماڈرن طرزِ زندگی اپنانے کےلئے اپنی ثقافت اور دینی اصولوں کو ترک کرنا اور مغربی طرز زندگی کو اپنانا ضروری ہے۔
پاکستان میں یونیورسٹیوں کی نگرانی اور پالیسیاں بنانے میں ایچ ای سی اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم طالبات کے لباس اور اسلامی اقدار کے فروغ کے حوالے سے ایچ ای سی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں لباس کے حوالے سے کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ بعض یونیورسٹیوں نے اپنے طور پر لباس کے حوالے سے اصول و ضوابط بنانے اور اپنانے کی کوشش کی لیکن انہیں شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ایچ ای سی نے ان اداروں کی حمایت کے بجائے خاموشی اختیار کی جو افسوسناک رویہ ہے۔ بحیثیت قومی ادارہ ایچ ای سی کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف معیاری تعلیم کو فروغ دے بلکہ تعلیمی ماحول کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے میں بھی کردار ادا کرے۔ ایچ ای سی نہ صرف لباس کے ضابطے کے لیے پالیسی وضع کرے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو پابند بھی کرے۔ اس سلسلے میں سماج کو بھی اپنا کردار ادا کرنے اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، مثلاً یونیورسٹی سطح پر ایسی مہمات چلائی جائیں جو طلبہ و طالبات کو حیا، پردے اور اسلامی لباس کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔ اساتذہ کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے طرزِ عمل اور لباس کے ذریعے طلبہ کے لیے ایک مثال بن سکیں۔ اسلامی اخلاقیات، حیا اور لباس کے اصولوں کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ یونیورسٹی کیمپسز میں غیر مناسب لباس کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے وقت ان کی اخلاقی ذہن سازی کریں اور تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کے بارے میں بھی فکر مند رہیں۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ چیزیں نارمل ہو چکی ہیں اور ہمارا تصور گناہ تک مسخ ہو چکا ہے اور ہم گناہ کو گناہ سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں۔ گویا ہم ایمان کے آخری درجے سے بھی نیچے جا چکے ہیں اور اگر ہمارا یہ حال ہے تو ہماری آئندہ نسلوں کا کیا حال ہو گا؟ بحیثیت مسلمان آج ہمارے لیے یہ سب سے اہم اور سنجیدہ سوال ہے۔