زراعت دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے۔ پنجاب کی معیشت کا اہم ترین حصہ زرعی شعبہ ہے، جس کی 70 فیصد آبادی زراعت پر منحصر ہے لیکن پھر بھی پاکستان کا کسان ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ کسان نا صرف کسی بھی ملک کی غذائی ضروریات پورا کرتے ہیں بلکہ زراعت کی پیداوار کو ملک کو برآمدات کا بھی بڑا حصہ ملتا ہے۔ پھر بھی 18 دسمبر ملکِ پاکستان کو چلانے میں اہم کردار ادا کرنے والے عظیم لوگوں کا دن اس خاموشی سے آیا اور گزر گیا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا، پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس شعبے کا سب سے اہم ستون پنجاب کے کسان ہیں۔ پنجاب کی زمین کا شمار دنیا کی زرخیز زمینوں میں ہوتا ہے اور یہاں کا کسان نا صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی زرعی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صنعتوں کو خام مال یہی شعبہ فراہم کرتا ہے لہٰذا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زرعی ترقی کے بغیر ملک و صنعتی ترقی ممکن نہیں۔ ملکی برآمدات کا نصف سے زائد انحصار ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرتا ہے بلکہ اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے اور صنعت و ملکی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔ شہر وں میں بیٹھے بڑے فیکٹری مالکان کے کاروبار اچھی فصلوں سے ہی ترقی کے منازل طے کر رہے ہوتے ہیں اور کسان دن رات محنت میں لگے رہتے ہیں۔ ان کسانوں کے دم سے لاکھوں لوگوں کو روٹی اور روزگار مل رہا ہوتا ہے جبکہ ان غریبوں کو آج تک نا تو اپنی فصلوں کا مارکیٹ میں صحیح سے معاوضہ ملتا ہے اور نا ہی کسی قسم کا ریلیف۔
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے
پاکستان میں زراعت کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے جس کی تقویت سے قوی اقتصادیات، مضبوط اور جس کا انحطاط معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ آدم ؑ کے بعد دنیا کی پہلی آبادی جب وجود میں آئی تو بنی آدم کا پیشہ صرف زراعت اور غلہ بانی ہی تھا۔ اپنی انتھک محنت اور لگن سے کسان نے اس کرہ ارض کو انواع و اقسام کی فصلوں، باغوں، پھلوں اور پھولوں سے آراستہ کر کے رشکِ فردوس بنایا اور خوراک کے ہر معاملے میں خود کفالت کی منزل کو پا لیا۔ کسان کی لگن اور انتھک محنت کے باعث جب ضرورت سے زیادہ اناج پیدا ہونا شروع ہوا اور اسے ذخیرہ کرنے کی نوبت آ پہنچی تو پھر ایسی بستیاں وجود میں آئیں جو بعد میں قصبات اور پھر شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ خدانخواستہ اگر
کسان فصلیں کاشت کرنا بند کر دیں تو ربِ کائنات ہی بہتر جانتا ہے کہ بنی نوع انسان پر کیا حالات گزریں گے، کیونکہ غذا کے حصول کا واحد راستہ جو بنی آدم کے پاس موجود ہے وہ کھیتوں میں کاشتکاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پچھلے کئی سال سے زراعت کا اہم شعبہ عدم توجہی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ آج کسانوں کی حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک دہقان جو مٹی کو سونا بنانے کی لیاقت رکھتا ہے، جو بنجر زمین کو سر سبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل کرتا ہے اور انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے آج قرضوں کے بوجھ تلے دبا وہی غریب کسان خودکشی پر مجبور ہے۔ انسانی دنیا میں کسان کی بہت اہمیت ہے گندم سے لے کر دال تک، چاول سے لے کر چینی تک کسان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے کسان نا صرف ملک کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں بلکہ ان کی محنت اور لگن کی بدولت ہی ملک کا زرعی شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ یوں تو پاکستان کے کسانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ان کی معاشی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن پانی کی کمی، زرعی ٹیکنالوجی کا فقدان، قیمتوں کا اتار چڑھاﺅ اور قرضوں کی مشکلات ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہیں۔ زراعت کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی افرادی قوت کی اکثریت شعبہ زراعت سے منسلک ہے لیکن پاکستان کے کسان ہر سال ہو رہی ماحولیاتی تبدیلیوں، ناقص حکومتی پالیسیوں اور دن بہ دن بڑھتی مہنگائی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ کھاد، کیڑے مار سپرے اور ادویات کی قیمتیں آسمان سے بات کرتی ہیں اس کے باوجود ان تمام ادویات کے معیار کے تعین کا کوئی نظام موجود نہیں۔ ایک ایسے ملک میں گندم باہر سے درآمد کی جاتی ہے جہاں کے کسان لائنوں میں لگ کر اپنی گندم فروخت کرتے ہیں اور کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ ہر گزرتا دن محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے مایوسیاں اور نئی پریشانیاں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس متوسط طبقے کو خود مختار بنانے کے لیے صدق دل سے کبھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہاں آئے روز قرضوں کی نت نئی سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جن کے جال میں پھنس کر پہلے سے ہی بدحالی کا شکار کسان اپنی زندگی کو مزید مشکلات اور اذیتوںکی نذر کر دیتا ہے۔ کروڑوں کی سبسڈیاں نجانے کہاں چلی جاتی ہیں کہ کسان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کھاد اور کیڑے مار ادویات کے دن بہ دن بڑھتے ریٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اُکساتے ہیں، ڈیزل کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز ہونے والا اضافہ انہیں نذرِ آتش ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ کسان تو آئے روز اپنے اخراجات اور قرضوں کو دیکھ کر مرتا ہی ہے مگر مڈل مین نے تو کسان کو جیسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یہ وہ متحرک گروہ ہے جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹ کو کنٹرول کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی اس گروہ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ آخر کب یہ محکمہ بھی غفلت کی میٹھی نیند سے بیدار ہو گا؟ کون یہ بات طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود ہمارے ملک کے چھوٹے بدحال اور پریشان کسانوں کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان کے کسانوں کے زخموں پر مرہم آخر کون رکھے گا؟ آخر کب تک سبسڈی کے نام پر کرپشن ہوتی رہے گی؟ کب تک ہمارے ملک کی معیشت اور زراعت مفادات کی نذر ہوتی رہے گی؟ ان کسانوں کی زندگی ہل چلاتے بیج بوتے گزر جاتی ہے مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ یوں تو حال ہی میں مریم نواز کی قیادت میں پاکستان کے کسانوں کی فلاح کے لیے کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں جن کی بدولت کسانوں کی مالی حالت میں بہتری آئی ہے اور ان کی زندگی کے معیار میں اضافہ ہوا ہے، تا ہم پاکستان کے زرعی شعبے کو مکمل طور پر مستحکم بنانے کے لیے مزید کئی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومتِ وقت کو کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے مزید وسائل فراہم کرنے اور زرعی پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے نہروں میں پانی کی کمی، آبی ذخائر کا بے دریغ استعمال اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں اب خشک سالی اور سیلاب جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس لیے وقت کی اشد ضرورت ہے کہ نہری نظام کی بہتری، پانی کے مزید ذخائر کی تعمیر اور جدید آبپاشی کے طریقوں کو استعمال میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ زرعی معیشت میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، حکومت کو کسانوں کے لیے فصلوں کی قیمتوں کے تعین میں شفافیت لانے کے ساتھ اور ان محنت کش کسانوں کو بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق قیمت فراہم کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ کسانوں کہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل اور انہیں ترقی کے لیے درکار وسائل فراہم کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک جامع پالیسی تیار کرے جو کسانوں کے تمام مسائل حل کرے اور انہیں مالی طور پر مستحکم بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ جس میں کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی، قرضوں کی آسان فراہمی، بہتر قیمتوں کی ضمانت اور پانی کی بچت کے جدید طریقوں کی تربیت فراہم کی جائے۔