سیاسی خودسپردگی کی خواہش

امریکہ ایک جمہوری طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں پر چار برس بعد ایک مخصوص تاریخ کو انتخابات ہوتے ہیں اور ہمیشہ سے طے شدہ اصولوں اور تاریخ کو الیکشن میں کامیاب رہنے والی شخصیت امریکہ کے نئے صدر کا عہدہ سنبھال لیتی ہے۔ امریکہ میں آندھیاں طوفان آئیں یا سیلاب میں نصف امریکہ ڈوب جائے انتخابات ملتوی نہیں ہوتے، نہ ہی اس حوالے سے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص دو مرتبہ صدر امریکہ منتخب ہو سکتا ہے۔ تیسری مرتبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکی تاریخ کے دو انتخابات ایسے ہیں جن کے نتائج سے عرصہ دراز سے قائم آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا بھرم ٹوٹ گیا۔ ان دونوں انتخابات میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا وہ چہرہ دنیا کے سامنے آیا جو اس سے قبل کسی نے نہ دیکھا تھا۔ ایک موقع پر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا ہیلری کلنٹن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ دوسری مرتبہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے تھے لہٰذا ان کا تمام تر وزن کمیلا کے پلڑے میں نظر آیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی دنگل میں بیک وقت کمیلا اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو پچھاڑا ہے لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کے غصے کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اور ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی نظر آئے گا۔ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالنے سے تو کوئی نہیں روک سکتا، انہیں دوسری ٹرم میں کامیابیاں حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کو اس بات کا یقینا احساس ہو گا وہ اور ٹیم مل کر اس خطرے کو کم سے کم کرنے کی کوششیں کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب تو امریکہ میں لڑ رہے تھے لیکن پاکستان میں فضا کچھ یوں نظر آئی جیسے وہ پاکستانی صدر کا انتخاب لڑنے کیلئے میدان میں اترے ہوں۔اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک تو یہ تھی کہ ان کے مقابل ایک بھارتی نژاد امیدوار میدان میں تھی۔ دوسرے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے لامحدود توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ وہ ہر صورت ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں نے ایک طرف امریکہ میں اس کے حق میں زبردست لابنگ کی اور مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے پاکستانیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ پر فوکس رکھنے پر متحد کیا دوسری طرف جوبائیڈن کی پسندیدہ شخصیت کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے جوبائیڈن کو نکما،سست الوجود اور نااہل امریکی صدر ثابت کرنے کیلئے اپنی مہم جاری رکھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے، کمیلا ہار گئی یوں جوبائیڈن اور ان کی جماعت کو بھی شکست ہو گئی جس کا یقینا انہیں ملال ہو گا۔ اب جبکہ جوبائیڈن چند دن کے مہمان ہیں انہیں ان کے زمانہ صدارت کے آخری ایام میں پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیوں کے اعلان نے پہلے سے غیر مقبول جوبائیڈن کو پاکستانیوں کی نظر میں مزید گرا دیا ہے اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ٹرمپ حمایت کو درست ثابت کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں رخصت ہونے والی حکومتوں کے سربراہ اس قسم کے فیصلے آنے والی حکومتوں کیلئے چھوڑ جاتے ہیں لیکن مسلمہ سیاسی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے شاید جوبائیڈن نے اس انداز میں انتقام لینے کی ایک کوشش کی ہے جس کا پاکستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔پاکستان کا میزائل پروگرام اول اول بے نظیر بھٹو صاحبہ کے زمانے میں شروع ہوا تھا گزشتہ تیس برس میں اس ٹیکنالوجی میں بے حد جدت آئی ہے۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پر امریکی مدد حاصل نہیں کی گئی۔ جوبائیڈن کو شاید اس کا بھی دکھ ہو گا۔ عین ممکن ہے اس حوالے سے چین اور کوریا کے دست تعاون کو روکنے میں ناکامی بھی ان کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنی ہو حالانکہ یہ سب کچھ تو آج سے ربع صدی قبل ہو چکا تھا۔
پاکستان کے میزائل پروگرام پر جاتے جاتے پابندیوں کے اعلان سے جوبائیڈن نے اسرائیل کو خوش کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ہے۔ وہ اپنے عہد صدارت کے آخری برس میں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کا ہاتھ بٹاتے رہے ہیں اور ان کی بھرپور مالی مدد کرتے رہے ہیں۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اگر انہیں انتخابات میں شکست ہوگی تو ٹرمپ اپنے انتخابی منشور کے مطابق فوری طور پر جنگ بندی کے اقدامات کرینگے۔ بائیڈن نے بظاہر چند ایک مواقع پر اسرائیل سے جنگ بندی کا کہا تھا لیکن وہ درون خانہ اسرائیل کو ہلاشیری دیتے رہے۔ مزید چند روز بعد جوبائیڈن ماضی بن جائیں گے۔ انہیں مسلم کش امریکی صدر کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا بالکل اسی طرح جس طرح کیری بش اور جارج بش کا نام لیا جاتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ عوامی سطح پر جوبائیڈن حکومت کیلئے جو بھی نکتہ نظر پایا جاتا ہو ہماری وزارت خارجہ کی اس حوالے سے کارکردگی کیا رہی ہے؟ جس کا کام ہی اپنے ملک کو اس قسم کی پابندیوں سے محفوظ رکھنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے اور مقاصد کے حصول کےلئے امریکی کانگریس میں اپنا اثر نفوذ قائم رکھنا اور اسے بڑھانا ہدف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے یہ ناکامی ہماری پہلی ناکامی نہیں ہے۔ جب بھی ہم پر ماضی میں مختلف پابندیاں لگیں ان کے پیچھے ہماری یہ ناکامی ہی تھی اور ان ناکامیوں کے پیچھے ہمارا وہ احمقانہ رویہ ہے جس کے سبب ہم ہر دور میں امریکی حکومت کو بلاوجہ یہ یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ہم انکے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں۔ وہ جو حکم کرینگے ہم بجا لائیں گے۔ دوسری طرف ہر زمانے کی بھارتی حکومت کی طرف سے انہیں یہ سگنل دیا جاتا ہے کہ امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔ بھارت کو امریکہ کی نہیں یوں وہ روس اور چین سے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا مفاد حاصل کرتا ہے۔ امریکہ کے ہاتھوں کسی بھی طور بلیک میل نہیں ہوتا۔ گزشتہ پچاس برس میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے کہ بھارت میں امریکہ نے حکومت یا لیڈرشپ تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ امریکہ پاکستان میں 1969ءکے بعد سے یہ کھیل باقاعدگی سے کھیل رہا ہے۔ اس کھیل میں اسے مقامی کھلاڑیوں کی سہولت کاری حاصل ہوتی ہے۔ امریکی خوشنودی حاصل کرتے کرتے ہم نصف ملک گنوا بیٹھے ہیں۔ امریکہ پھر بھی خوش نہیں ، یہی رونا ہماری وزارت خارجہ نے آج روتے ہوئے بتایا ہے کہ ہم نے امریکہ سے بہتر تعلقات کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں اور کبھی کوئی بدنیتی نہیں رکھی، جنہیں تعلقات کہا جا رہا ہے وہ دراصل ناجائز تعلقات سے زیادہ ہمیں نقصان پہنچا گئے ہیں۔ ہماری سیاسی خودسپردگی کی خواہش ختم ہی نہیں ہو رہی کبھی چین کی طرف بھاگتے ہیں، کبھی امریکہ کی طرف لپکتے ہیں لیکن وقار کے ساتھ نہیں انداز رکھیل جیسا ہے جو خوددار قوموں کا شیوہ نہیں ہوتا۔