انتہائی بلند افراط زر کی شرح کو کنٹرول کرنے کے بعد اسٹیبلائزیشن پروگرامز کو لاگو کرنا آسان تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہائپر انفلیشن مالی اثاثوں کو کھا جاتا ہے۔ لہٰذا بلند افراطِ زر کو کم کرنا بڑی کامیابی ہے۔ اس کیلئے نہ ہی قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا اور نہ ہی ایکسچینج ریٹ میں رد و بدل کیا گیا۔ جبکہ ماضی کی حکومتیں فوری رزلٹ دکھانے کے چکر میں اس طرح کے ہیر پھیر کرتی آئی تھی جو کہ لانگ ٹرم میں معیشت کے لیے نقصان کا باعث بنے۔ ہاوئیر کا کہنا تھا کہ جو ایڈجسٹمنٹ اور اصلاحات انہوں نے کی ہیں اس کا نتیجہ انتہائی مثبت نکلا ہے یہاں تک کہ ارجنٹائن کی تاریخ میں سب سے کامیاب پروگرام Convertibility Program تھا جسے ان کی جینوئن معاشی پالیسیوں نے مات دے دی ہے۔ ان کا ڈی ریگولیشن ایجنڈا جس پر روزانہ کی بنیاد پر کام ہو رہا ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 32 سو مزید سٹرکچرل ریفارمز پائپ لائن میں ہیں جن کے بعد ارجنٹائن دنیا کا آزاد ترین ملک بن جائے گا۔ وہ آئرلینڈ کی طرح جلد ہی معاشی آزادی کے حصول میں کامیاب ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ معاشی آزادی میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ کو پیچھے چھوڑنے کا خواب بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ارجنٹائن کے صدر کو کوئی شبہ نہیں کہ ارجنٹائن جلد ہی دنیا میں معاشی طور پر سب سے زیادہ آزاد ملک کے طور پر ابھرے گا۔ ہاوئیر کے مطابق اب وہ اس معاشی ترقی کی پٹڑی پر چڑھ چکے ہیں جہاں کی فی کس جی ڈی پی اب ملٹی پلائی ہو گی جس سے معیار زندگی میں بڑی بہتری آئے گی۔ ماہرین کے مطابق ارجنٹائن کی معیشت اگلے برس جی ڈی پی کا 5 اور 6 فیصد کے درمیان گروتھ کرے گی۔ جبکہ ارجنٹائن 10 سال کے عرصہ میں فی کس جی ڈی پی کو ڈبل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ رواں سال کے پہلے مہینے غربت کی شرح 58 فیصد تھی جو کہ دسمبر میں کم ہو کر 46 فیصد ہو گئی ہے۔ چند ماہ میں غربت میں 11 فیصد کمی ہوئی جس کو ہاوئیر ایک معجزہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب سے انہوں نے پبلک آفس سنبھالا ہے ان کی پاپولیرٹی میں کمی نہیں ہوئی۔ ان کی ٹیم ان سے مطمئن ہے جس کی وجہ سے وہ مزید اہم اور گہری اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ تب تک اصلاحات کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ ارجنٹائن کو دنیا کا معاشی طور پر آزاد ترین ملک نہیں بنا لیتے۔ انہیں اپنی مقبولیت کا گراف گرنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ مشکل ترین حالات کا مضبوطی سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن اور دیگر ان کی سٹرکچرل ریفارمز پر کڑی تنقید کرتے آئے ہیں۔ ہاوئیر نے سنگل بیلٹ پیپر کے قانون کو متعارف کرایا، جو منظور بھی ہو چکا ہے۔ اس قانون سے انتخابات کی لاگت کو کم کیا گیا ہے اور انتخابات کو مزید مسابقتی بنانے میں مدد ملے گی۔ سنگل بیلٹ پیپر کا وعدہ اگرچہ ماضی کی حکومتیں کرتی رہیں مگر انہوں نے اس سمت کوئی عملی قدم نہ اٹھایا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ الیکشن فراڈ نہیں کر سکتی تھیں۔ نتیجتاً قومی خزانہ ایک بڑا بوجھ برداشت کرتا رہا۔ صدر کے سٹرکچرل اور ریگولیٹری ریفارمز سے ارجنٹائن کے عوام کو ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہاوئیر کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت ارجنٹائن کی تاریخ کی سب سے بہترین حکومت ہے جس نے ماضی کے صدر مینم کے دور اقتدار کی پاپولیرٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ ارجنٹائن کے صدر کی جانب سے ریگولیٹری اور سٹرکچرل اصلاحات نے لوگوں کے لیے شارٹ ٹرم مشکلات بھی پیدا کیں لیکن اپریل کے مہینے سے معیشت میں بہتری آنا شروع ہو گئی، افراطِ زر میں کمی سے کم اجرت والے لوگ بھی گزارا کرنے لگے جبکہ انفارمل سیکٹرز میں اجرت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکس میں جو وقتی اضافی کیا گیا تھا وہ بھی کم کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ماضی کی حکومتوں نے کرنسی پرنٹنگ کے ذریعے معیشت کو تباہ کیا اور افراطِ زر خوفناک حد تک بڑھا دیا جس سے غربت اور بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔ مائیلی کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ افراطِ زر کو ختم کر کے اور بہت بڑے پیمانے پر مالی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے انہوں نے وسائل کی تقسیم کو بہتر بنایا ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے ارجنٹائن کی ریٹنگ کو سی پلس کر دیا ہے۔ بدعنوان سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے باوجود کرپشن کے خاتمے کو ممکن بنایا گیا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ حال ہی میں
کرپشن کے چارجز پر سابق خاتون پریذیڈنٹ Fernandez de Kirchner کو سزا سنائی گئی ہے۔ ان کی پنشن اور دیگر مراعات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاہ ہاوئیر نے عدلیہ کی آزادی کو ممکن بنایا۔ موجودہ صدر کی حکومت میں عدلیہ بالکل آزادانہ فیصلے کرنے کی استعداد رکھتی ہے کیونکہ ان پر کوئی حکومتی دباو¿ نہیں ڈالا جاتا۔ کرپشن کے خلاف ہاوئیر مائیلی نے اعلان جنگ کر رکھا ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کا قلع قمع کیا جائے گا۔ یہاں تک میڈیا میں کرپشن بھی ان کے ریڈار پر ہے۔ انہوں نے حکومتی اداروں سے ایڈورٹائزنگ کو بھی ختم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کے خلاف زہر اس لیے اُگلتا ہے کیونکہ ان کی لائی گئی اصلاحات سے میڈیا کی اجارہ داری کو خطرہ ہے۔ میڈیا بغیر کسی ثبوت کے کسی کو بھی بے عزت اور پریشان کرتا ہے جو کہ اب وہ نہیں ہونے دیں گے۔ ان کے خیال میں ارجنٹائن کے صحافیوں کی اکثریت ’ایکس‘ سے نفرت کرتی ہے کیونکہ ہم لبرلز ایکس نیٹ ورک کو پسند کرتے ہیں، ہم ہر وہ بات ایکس نیٹ ورک پر کہہ سکتے ہیں جو ہم لوگوں کو کہنا چاہتے ہیں جس سے مین سٹریم میڈیا کی مائیک پر اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ آزادی رائے کا پرچار کرنے والے دراصل ہمارے ان آئیڈیاز کو سنسر کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتے۔ جبکہ ایکس نیٹ ورک پر آزادی رائے دراصل حقیقی آزادی ہے۔ ان کے مطابق بائیں بازو والے اس آزادی کے خلاف ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کے حامی ہیں۔ ان لوگوں نے 150 ملین لوگوں کا قتل کیا اور جب ان کو سچ بتایا اور دکھایا جائے تو یہ Hate speech کا الزام لگا دیتے ہیں۔ ہاوئیر نے سوشل میڈیا اور ایلون مسلک کا شکریہ ادا کیا جن کی وجہ سے وہ لوگوں تک اپنا نظریہ پہنچا سکے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ارجنٹائن میں سیاستدان اور میڈیا ایکسپوز ہوا۔ کچھ کریڈیبل صحافیوں کے علاہ باقی کو انہوں نے چور اور بدنام کرنے والے گروہ کے طور پر پیش کیا۔ وہ اس محاذ پر بھی جنگ لڑی رہے ہیں۔ ہاوئیر کا کہنا ہے کہ ان کی جنگ صرف معاشی اور آزادی رائے کے لیے ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگر وہ آزاد نہیں تو ان کے لیے جینا بے معنی ہے۔ ان کی منزل حقیقی آزادی ہے چاہے اس کے لیے ان کو اپنی جان کا نذرانہ ہی پیش کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ کہانی ایک ایسے ملک کی ہے جس کے حالات پاکستان سے بھی بدتر تھے۔ پھر ایک ایسا انقلابی رہنما آیا جس نے چند ہی ماہ میں مک کی کایا پلٹ دی۔