سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد فوجی عدالتوں نے سانحہ نو مئی کے پچیس مجرموں کو دو سے دس برس تک کی قید بامشقت سنا دی ہے۔ یہ نو مئی کے حملہ آوروں کو ملنے والی پہلی سزا ئیں نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے گوجرانوالہ سے اکاون اور اسلام آباد سے دس مجرموں کو سزائیں مل چکی ہیں یعنی مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے چھیاسی کارکن سزا یافتہ ہو چکے ۔ جو لوگ فوجی عدالتوں پر تنقید کر رہے ہیں کہ کھلی سماعت نہیں ہوئی ، میرے پاس انصاف لائیرز فورم کے سنٹرل پنجاب کے جنرل سیکرٹری علی جعفری ایڈووکیٹ کی گواہی موجود ہے جنہوں نے ان عدالتوں میں پیش ہو کے مقدمہ لڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں معاملات سول عدالتوں سے کہیں زیادہ اور کئی حوالوں سے بہتر ہیں جیسے کی شواہد اور دلائل کی اہمیت اور اس سے بھی بڑھ کے سول کی نسبت فوجی قانون میں درج کم سزائیں اور اگر آپ فوجی عدالتوں سے سزائوں کو انتقامی کہتے ہیں تو آپ ہی بتا دیں کہ کیا سول عدالتوں سے پی ٹی آئی کے رہنما بری ہو رہے ہیں؟
سوال یہ بھی ہو رہا تھا کہ فوجی عدالتوںسے نو مئی کی سزائیں کیوں نہیں ہو رہیں۔ پی ٹی آئی والے پکا سا منہ بنا کے کہتے تھے کہ اگر ہمارے خلاف ثبوت موجود ہیں تو سزائیں دیں۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی عدالتوں سے سزائیں سنانے کے خلاف حکم امتناعی موجود تھا کیونکہ فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ آئینی بینچ نے ایک ہفتہ قبل ہی فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی ہے ۔ میں نے گوجرانوالہ اور اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے بعد فوجی عدالتوں کے سزایافتگان کو بھی دیکھا ہے۔ گوجرانوالہ کے سزایافتگان میں پی ٹی آئی کے کچھ عہدیداروں، ٹکٹ ہولڈروں اور رکن اسمبلی کے علاوہ زیادہ تر عام کارکن ہیں جنہیں گمراہ کر کے ملک بھر میں حملوں کے لئے پہنچایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی سزائیں دو سے دس برس کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہوگا جس پر باقاعدہ منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا ہو گا یا اسے ماسٹر مائنڈ کہا جا سکے گا۔اس کا واضح مطلب ہے کہ نو مئی کے بڑے بڑے حملہ آوروں کو سزائیں ابھی باقی ہیں اور اس سلسلے میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز واضح اور دوٹوک انداز میں بتا رہی ہے کہ دیگر ملزمان کی سزاوںکا اعلان بھی قانونی عمل مکمل کرتے ہی کیا جا رہا ہے اور صحیح معنوں میں مکمل انصاف اس وقت ہو گا جب نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی۔
آپ سیاسی تجزیہ نگار ی میں کسی نومولود سے بھی پوچھیں گے تو وہ بتا دے گا کہ ’ ریاست‘ نو مئی کا’ ماسٹر مائنڈ ‘ کس کو سمجھتی ہے مگر حیرت انگیز طور پر کچھ سوشل میڈیا ٹرولز کچھ روز سے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں کہ عمران خان کو رہا کیا جا رہا ہے یا پہلے مرحلے میں پشاور یا بنی گالہ منتقل ۔ اس سلسلے میں ایک بڑے ٹی وی چینل کے سات بجے والے شو کے اینکر نے بھی کچھ دعوے کئے ہیں جو ٹی وی سکرین اور ویب سائیٹ کے ذریعے پھیلائے گئے ہیں۔ لیکن جس وقت یہ ٹرولز کہہ رہے تھے کہ اڈیالہ سے بنی گالہ کا سفر طے ہونے جا رہا ہے اور یہ کہ اس کی وجہ سے حکومتی ایوانوں میں کوئی زلزلہ برپا ہے تو اسی روز عمران خان اور گنڈا پور سمیت ایک درجن سے زائد رہنمائوں کی جی ایچ کیو حملہ کیس میں بریت کی درخواست مسترد ہورہی تھی۔عمران خان کی رہائی کی امیدیں ایک امریکی عہدیدار کے ٹوئیٹس سے لگائی جا رہی ہیں جس کا اکاؤنٹ ہی جعلی ثابت ہو رہا ہے۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پی ٹی آئی والے صورتحال کا درست ادراک کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہورہے ہیں۔ وہ شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کے سمجھ رہے ہیں کہ طوفان گزر چکا ہے جبکہ اصل طوفان ابھی آنا باقی ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومتی حلقوں میں یہ بات ڈسکس ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت کیا ہے۔ حکومتی حلقے چوبیس اور چھبیس نومبر والی کارروائی کے بعد بہت زیادہ پراعتماد ہیں اور اس سے کہیں پہلے ان کا اعتماد اس وقت بحال ہوا تھا جب سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی طرف سے اکثریتی ارکان کا اس وقت کے چیف جسٹس کے مطابق غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ آیا تھا جسے الیکشن کمیشن نے بھی رد کر دیا تھا ۔ صورتحال کچھ یوں بنی تھی کہ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترامیم کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی اوراس کے بعد فوجی قوانین میں ترامیم بھی کر لی گئی تھیں۔ہمیں مذاکرات اور ریلیف کے معاملات کو فوجی اور سیاسی دو مختلف پیمانوں میں ڈال کے دیکھنا ہو گا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر سیاسی حکومت مذاکرات پر آمادہ ہو بھی جاتی ہے تب بھی نو مئی کی معافی نہیں دے پائے گی۔ پی ٹی آئی والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج کی طرف سے مذاکرات کے انکار کے بعد حکومت کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس کے ذریعے کوئی ریلیف حاصل کر لیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کی بدترین مظالم کر کے نواز شریف کی اپنے لئے نرمی اور حمایت بھی مشکوک بنا دی ہے۔ کیا نواز شریف اس عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھ سکتے ہیں جس کے ساتھیوں اور گماشتوں نے انہیں ان کی محبوب اہلیہ کی وفات تک پر اذیت کا شکا ررکھا۔ اگر کوئی نواز شریف کی گفتگو سن رہا ہے تو وہ ہر بار اس کرب کا اندازہ لگا سکتا ہے جو ان کے لہجے اور لفظوں سے جھلک رہا ہوتا ہے حالانکہ یہ وہی میاں نواز شریف تھے جو اسے سیاسی مخالفت کے باوجود ایک ہیرو سمجھتے تھے۔ نواز شریف نے کے پی میں عمران خان کی پارٹی کی حکومت خود اپنے ساتھیوں سے اختلاف کر کے بنوائی تھی اوراس سے پہلے بطور وزیراعلیٰ، اپنے والد کے ساتھ، اس کی ماں کے نام پر ہسپتال کے پراجیکٹ کو حکومتی اور ذاتی طور پر مکمل سپورٹ کیا تھا۔ جب یہ شخص لفٹ سے گرا تھا توانتخابی مہم معطل کر کے اس کی عیادت کی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی رہائش گاہ پر خود چل کر گئے تھے ۔ جب سیاسی اختلافات انتہا پر تھے تب بھی اسے تقریروں میں عمران خان صاحب کہہ کے مخاطب کرتے تھے مگر اس نے اپنی بدزبانی میں ان کی پیاری بیٹی تک کے لئے غیر مہذب الفاظ استعمال کئے تھے۔ نواز شریف کے لئے عمران خان کا دور پرویز مشرف کے دور سے بھی تکلیف دہ تھا۔ آج کے پاکستان میں عمران خان کو صرف نواز شریف بچا سکتے تھے اور بچا سکتے ہیں مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف ایسا کریں گے یا انہیں ایسا کرنا چاہئے؟