نہ صرف حکمران اورسیاستدان بلکہ اس ملک میں ہر کسی کو غریبوں کا کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں، نوابوں، چوہدریوں اور وڈیروں کے کام تومنٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں ہوجاتے ہیں لیکن جب کسی غریب کاکوئی کام اورنمبرآتاہے توپھرمعمولی سے معمولی کام پربھی دن اورمہینے نہیں بلکہ مہینے اورسال تک لگ جایاکرتے ہیں۔سرمایہ داروں اورامیروں کے کام کرتے ہوئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتاپرکام جب کسی غریب،مسکین اورفقیرکاہوتوپھرمسئلہ ہی نہیں بلکہ ہزارقسم کے مسائل نکل آتے ہیں۔بینظیرانکم سپورٹ پروگرام غریبوں کی فلاح وبہبوداوران کوسہارادینے کے لئے شروع کیاگیا۔بلاکسی شک وشبہ کے یہ ایک تاریخی کام اوراقدام ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اس پروگرام کے ذریعے ہزاروں نہیں لاکھوں غریبوں کوسہاراملا،وہ لوگ جن پرغربت اورمالی پریشانیوں کی وجہ سے زندگی تنگ ہوکررہ گئی تھی اس پروگرام کے ذریعے انہیں نہ صرف جینے کی امیدہوچلی اورشمع نظرآئی بلکہ انہیں آگے بڑھنے اورسکون سے زندگی گزارنے کاایک بھرپورحوصلہ بھی ملا۔اس پروگرام سے ملک کے اندراس وقت غالباً ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مستفیدہورہے ہوں گے۔اگریہ کہاجائے کہ ہزاروں خاندان اورگھروں کے چولہے اس وقت اس پروگرام کی برکت سے جل رہے ہیں توبے جانہ ہوگاکیونکہ وہ گھراورخاندان جن کے چولہے غربت کی وجہ سے بجھ گئے تھے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے وہ چولہے پھرسے جلنے لگے ہیں۔یہ پروگرام چونکہ ملک سے غربت کے خاتمے اورصرف غریبوں کے لئے ہے اس لئے یہ شروع دن سے ہی ہرحاسدکی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہاہے۔ماناکہ حکومت اس پروگرام کوکامیاب سے کامیاب تربنانے کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے لیکن حکومتی کوششوں اوراقدامات کے باوجودکچھ مسائل ایسے ہیں جواس تاریخی پروگرام کی کامیابی میں رکاوٹ بن رہے ہیںکیونکہ ان مسائل کی وجہ سے اس پروگرام سے وابستہ قوم کی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوامدادکے حصول کے لئے آج بھی خوار ہونا پڑ رہا ہے۔ اس پروگرام سے چونکہ قوم کی زیادہ تر وہ مائیں، بہنیں اوربیٹیاں وابستہ ہیں جن کا کوئی آسرا نہیں۔ غربت اوربے سہارا ہونے کی وجہ سے یہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جب امدادو اقساط کے حصول کے لئے جاتی ہیں توپھربائیومیٹرک سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ پہلے توبائیومیٹرک فرنچائزنے بی آئی ایس پی مستحقین کولوٹنامعمول بنالیاتھا۔ہرقسط سے یہ اپناحصہ وصول کرنافرض سمجھتے تھے۔ پھر حکومت نے اس کا نوٹس لیااوراس کے بارے میں سخت احکامات وہدایات بھی جاری کئے گئے اب پتہ نہیں کہ بائیومیٹرک والے حصہ لیتے ہیں یانہیں لیکن بینظیرانکم سپورٹ پروگرام سے منسلک قوم کی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے لئے بائیومیٹرک یہ پہلے بھی کسی بڑے عذاب سے کم نہیں تھااوریہ اب بھی ایک بہت بڑاعذاب ہے۔بی آئی ایس پی امدادلینے والی ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی اکثریت کاتعلق گاؤں،دیہات اوردوردرازعلاقوں سے ہے۔ گاؤں اور دیہات میں بائیو میٹرک سسٹم اورمشینیں تو نہیں اس لئے ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کوامدادکے حصول کے لئے کئی کئی گھنٹوں کاسفرطے کرکے شہروں میں آناوجانا پڑتا ہے پھر شہر میں کبھی بائیومیٹرک سسٹم ڈاؤن ہوتا ہے اور کبھی انگوٹھے نہیں لگتے۔ جن ماؤں، بہنوں اوربیٹیوں کاگزربسرپہلے ہی مشکل سے ہو ایسے میں ان کے لئے گاؤں اوردیہات سے باربارشہرآناممکن نہیں ہوتاکیونکہ گاؤں اور دیہات سے ایک باربھی شہر آنے اور جانے پراچھے بھلے انسان کی بھی جیب خالی ہوجاتی ہے پھرجن کی جیبیں پہلے ہی خالی ہوں ان کے لئے روزروزشہرآناوجانا کیسے ممکن اورآسان رہے گا۔؟بی آئی ایس پی سے غریب مائوں ،بہنوں اوربیٹیوں کو جوامدادمل رہی ہوتی ہے وہ اگرگاؤں سے شہرکے ان چکروں پر چکر لگانے پرہی خرچ ہوں توپھرایسی امداداورریلیف کا کیا فائدہ۔؟ اگر دیکھا جائے توبی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والے غریبوں کے لئے بائیومیٹرک سسٹم اس وقت نہ صرف دردسربلکہ درد جان ومال بھی بناہواہے۔مستحق افرادکی بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق اچھی بات لیکن حکومت اوربی آئی ایس پی کے ذمہ داران کوبائیومیٹرک سسٹم،عمل اورطریقہ کارکے ذریعے غریب مستحقین تک پہنچنے والے نقصان اورمسائل کابھی ادراک کرنا چاہئے۔ یا تومستحق افراد کو اس عذاب اورامتحان سے نکالنے کے لئے گاؤں اوردیہات کے اندربائیومیٹرک سسٹم کامناسب آغازکیاجائے نہیں تو پھر ہر بار بائیو میٹرک تصدیق والاسسٹم وسلسلہ ختم کرکے تمام مستحق افراد کے بنکوں میں اکاؤنٹ کھولے جائیں وہاں روز روز اور ہر بار بائیومیٹرک تصدیق کایہ سسٹم اور سلسلہ توکم ازکم نہیں ہو گاکیونکہ ایک ہی بار بائیو میٹرک کی تصدیق پراس ملک میں سالوں تک لوگ بنکوں کے ذریعے پیسے بھیجتے اوروصول کرتے ہیں۔ ایک بار انگوٹھالگانے پر اگر چیک اوراے ٹی ایم کے ذریعے لوگوں کوگھربیٹھے پیسے مل سکتے ہیں تو پھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحق افرادکوکیوں نہیں۔؟ اس پروگرام سے منسلک لوگ تواس بات اور سہولت کے زیادہ حقدارہیں کہ انہیں امدادکی رقم گھربیٹھے پابندی کے ساتھ چپکے سے ملاکرے۔شریعت کاتقاضابھی یہی ہے کہ دوسرے کومددکے طورپرکچھ دیتے ہوئے ایساطریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ ایک ہاتھ سے کسی کی مددکی جائے تودوسرے ہاتھ کوبھی اس کی خبر ہی نہ ہو۔جس امدادوخیرات سے سائل کی بے ادبی ،بے عزتی ہو یا اس کاذرہ بھی استحقاق مجروح ہوتوایسی امداد اور خیرات ثواب کے بجائے اکثرگناہ اور عذاب کے باعث بنتے ہیں۔