پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس میں اپنے دو وزرائے اعلیٰ اور دو گورنر سے ایک اہم نوعیت کا اجلاس کیا ہے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے یعنی کہ مسلم لیگ نون کی حکومت سے ناراض ہے اور اس وقت تک وزرائے اعلیٰ اور گورنر حکمرانوں کی کسی بات میں شامل نہ ہوں جب تک میری طرف سے انہیں اشارہ نہ مل جائے یہ بڑی زبردست بات ہے جو کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے وزرائے اعلیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ حکمرانوں کے ساتھ ہمارے مذاکرات کس نوعیت کے تھے اور کس معاملے پر اٹکے ہوئے ہیں یہ گتھی اگر وہ سلجھا دیتے تو ممکن تھا کہ ان چار اشخاص کے علاوہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو بھی علم ہو جاتا کہ مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا ظلم اور کیا زیادتی کر رہی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم ن کی حکومت بنانے 26ویں ترمیم اور دیگر جتنے بھی پاکستان تحریک انصاف پر ہونے والے مظالم ہیں ان پر شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سابق وفاقی وزیر قمر الزمان کائرہ نے ایک موقع پر یہ ضرور ارشاد فرمایا ہے کہ ایسا کرنا 26 نومبر کو بہت ضروری تھا پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی لگنے سے شہادت اور بیگم نصرت بھٹو پر لاٹھی چارج کر کے خون بہانے والوں مرتضے بھٹو اور شاہنواز بھٹو سابقہ دشمنوں سے گلے سے گلا ملا کے کندھے سے کندھا ملا کے چل رہے ہیں اور یہ سب کچھ جمہوریت کے لیے کر رہے ہیں لیکن نہ جانے اب کون سا سانپ پیپلز پارٹی کو بھی سونگھ گیا ہے کہ وہ وزیراعظم میاں شہباز شریف سے نالاں نالاں نظر آتے ہیں تو اس موقع پر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے پوچھتا ہوں کہ اگر بلاول بھٹو زرداری مہنگائی کے سلسلے میں دہشت گردی کے سلسلے میں ظلم بربریت اور ملک کی تباہی کے سلسلے میں میاں شہباز شریف سے ناراض ہیں تو یہ کھل کر بتائیں تو پوری قوم ان کا ساتھ دے گی اور اگر یہ چند ٹکوں کے لیے سیاسی بندر بانٹ کے لیے اور پنجاب میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مسلم لیگ ن سے نالاں ہیں تو اس کا حل پاکستان کی عوام سے بہتر اللہ تعالی جانتے ہیں اس لیے بلاول بھٹو زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بنیں اور عوام کو بتا دیں حکومت بناتے وقت جس بندر بانٹ کا شریفوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا اس کا پورا حصہ نہیں دیا جا رہا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اب تک سارے مذاکرات پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کے ساتھ درپردہ ہیں اور کسی وقت بھی حکمرانوں کی طرف سے ایسے اقدامات جس سے عوام پس رہی ہو قوم کے سامنے نہیں آئے دوسری طرف مولانا فضل الرحمن جو کہ گزشتہ رات تک اپنے جلسوں میں اپنی پریس کانفرنسوں میں اور اپنے کچن کیبنٹ کے درمیان یہ باتیں کر رہے تھے کہ اگر مدارس کا بل شہباز شریف نے پاس نہ کیا تو ہم اسلام آباد کا رخ کریں گے لیکن قوم اس وقت بھی جانتی تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی گاڑی کا ڈیزل ختم ہو چکا ہے اور وہ ٹینک بھروانے کے لیے مدارس کے بل کا رونا رو رہے ہیں اور جونہی وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب کی ان سے ملاقات ہوگی وہ ملاقات محبت میں بدل جائے گی اور پھر ایک دن آئے گا کہ جس طرح 26 وہی ترمیم پر مولانا فضل الرحمن نے پاکستان تحریک انصاف کی دوڑیں لگوائی تھی اسی طرح مولانا فضل الرحمان بل کی آڑ میں اپنی ڈیزل کی ٹینکی فل کرا کے باقی سارے معاملات بھول جائیں گے اور وہی حکومت ہوگی اور مولانا فضل الرحمان ہوں گے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن جو کہ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی باتیں کر رہے تھے یہی باتیں پھر وہ عمران خان کے خلاف استعمال کریں گے اور ضرور اڈیالہ جیل جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب حق اور سچ کی فتح ہوگی اور اڈیالہ جیل کا قیدی عمران خان نیازی جیل سے باہر آئے گا اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نبرد آزما ہو گا۔