آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے

پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان، مجیدبریگیڈ، بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیںجنہیں جہنم واصل کرنے کے لیے وطنِ عزیزکے جری جوان ہمہ وقت برسرِپیکار رہتے ہیں۔ پاک فوج کی لازوال قربانیوںکی طویل داستان کے علاوہ دہشت گردوںکے خاتمے کے لیے پولیس، رینجراور ایف سی کے اہلکاربھی مصروف رہتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جوملک کی سلامتی کے خلاف ہتھیار اُٹھائے گااُس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے ہی نمٹاجائے گا۔ حیرت مگر یہ ہے کہ سیاسی جماعت کالبادہ اوڑھے ایک ٹولہ ہمہ وقت ملکی سلامتی کے در پے ہوتاہے مگراُس کے ساتھ سلوک مشفقانہ، آخر کیوں؟۔ کیایہ شَرپسند گروہ جس کاایک وزیرِاعلیٰ یہ کہتاہے ’’اگلی دفعہ پُرامن والی بات نہیں کریںگے، یہ عوام گریبان سے پکڑکر نکالے گی کہ تم ’’شام‘‘ کوبھول جاؤگے‘‘۔ اُس نے یہ بھی کہاکہ پولیس، رینجرزاور فوج اپنے آفیسرز کاحکم ماننے سے انکار کردے۔ وہ مسلح جتھے لے کر اسلام آبادپر چڑھائی کرتاہے، غلیلوں، پتھروں اورآنسوگیس کے ایسے شیلوںسے اُس کے شَرپسند لیس ہوتے ہیںجو پاکستانی شیلوںسے 4گُنا زیادہ پاور رکھتے ہیں۔ اُس کے ہمراہ اُس صوبے کی پولیس اور ریسکیو1122کی گاڑیاں بھی تھیں۔ اِس کے علاوہ مسلح افغان دہشت گردبھی ہمراہ تھے۔ وہ دہشت گرد درختوںکو آگ لگاتے، گاڑیاں جلاتے، رینجرزکے 4، پولیس کے 2جوانوں کوشہید کرتے اور 119پولیس اہلکاروں کوزخمی کرتے ڈی چوک اسلام آباد پہنچتے ہیںجہاں بغیرکوئی گولی چلائے پولیس اور رینجرزکے جوان اُنہیں منتشر کردیتے ہیں۔ تب یہ انتشاری ٹولہ سوشل میڈیاپر شور مچادیتا ہے کہ فوج کی فائرنگ سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوگئیں حالانکہ اُن ہلاکتوں کے ثبوت اِس ٹولے کے پاس ہیںنہ الیکٹرونک میڈیاکے رپورٹر کے پاس اور نہ ہی کیمرے کی آنکھ نے لاشوںکو محفوظ کیا۔ البتہ یہ ضرورہوا کہ رینجراور پولیس کے 6شُہداء کاخونِ ناحق سوشل میڈیاکے پراپیگنڈے میں دَب کے رہ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگرہتھیار اُٹھانے والی دہشت گرد تنظیموں کونیست ونابود کرنے کے لیے ہتھیار اُٹھائے جاسکتے ہیںتو اِس ’’لاڈلی‘‘ سیاسی جماعت کے دہشت گردوںکے خلاف کیوں نہیں؟۔ جب سے 26نومبر کا دن گزرا ہے حکمرانوںکی یہی رَٹ کہ گولی نہیں چلی، پولیس اور رینجرز غیرمسلح تھے، اگرکوئی لاش گری توکوئی ثبوت دکھاؤ۔ آخریہ رویہ کیوں؟۔

ہم آج بھی اِس کہے پہ قائم ہیںاور سمجھتے ہیںکہ ایسے شَرپسند کسی رعایت کے مستحق نہیںجن کاجیل میںبیٹھا لیڈرکبھی 9مئی جیسی ناکام بغاوت کرواتاہے اورکبھی 24نومبر کوایک صوبے کے وزیرِاعلیٰ کومرکزی دارالحکومت پرچڑھائی کاحکم دیتاہے۔ اُس کی جلسے جلوسوں کی صورت میں املاک کی تباہیوں کی داستان طویل ہے۔
چنددن پہلے تحریکِ انصاف کے رَہنماء حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیارہوئے۔ قائدِحزبِ اختلاف عمرایوب نے کہاکہ وہ مذاکرات کے لیے تیارہیں خواہ انسانوںکے ساتھ ہوںیا فرشتوں کے ساتھ۔ تحریکِ انصاف کے موجودہ چیئرمین بیرسٹرگوہر نے کہاکہ مذاکرات کے لیے ہماری کوئی شرط نہیں، یہ غیرمشروط ہوںگے۔ پھر پارلیمنٹ میں اجلاس کے دوران دونوں طرف سے آگ اُگلنابند ہوئی اور یوں محسوس ہونے لگاکہ جیسے برف پگھل رہی ہو۔ اِس سلسلے میں سپیکرقومی اسمبلی سردار ایازصادق کاکردار لائقِ تحسین۔ اُنہوںنے کہاکہ مذاکرات کے لیے اُن کاگھر اور دفتر، دونوں حاضرہیں۔ وہ پورے ہاؤس کے کسٹوڈین ہیںاور اُن کے لیے سبھی برابر ہیں۔ پھرکچھ یوںہوا کہ 19دسمبر کوجیل میں بیٹھے بانی کاحکم صادر ہواکہ 22دسمبر تک اُس کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں بصورتِ دیگر وہ سول نافرمانی کی تحریک کاآغاز کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ریمیٹنس سے انکار کا کہہ دیں گے۔ حکومت کا توخیر بانی کا کوئی ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کرے گی اِس لیے اب دیکھتے ہیںکہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی ہے یانہیں۔

اب ذرا ’’خوگرِحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے‘‘ کے مصداق کچھ پنجاب حکومت کے بارے میں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز اَنتھک محنت کررہی ہیںاور اُن کی کامیابیوں کے آثاربھی ہویدا ہیںلیکن اُن کی پنجاب حکومت کے وزیروں، مشیروں اورارکانِ اسمبلی پرعنایتِ خسروانہ کی سمجھ نہیں آئی۔ اُن کی تنخواہوں میںکئی گُنااضافہ کردیا گیاہے۔ ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ 78ہزار روپے سے بڑھاکر 4لاکھ روپے ماہانہ، سپیکرکی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھاکر 9لاکھ 50ہزار روپے ماہانہ، ڈپٹی سپیکرکی ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھاکر 7لاکھ 75ہزار روپے ماہانہ، پارلیمانی سیکرٹری کی 83ہزار روپے سے 4لاکھ 51ہزار روپے ماہانہ، سپیشل اسسٹنٹ اور ایڈوائزر کی ایک لاکھ روپے سے بڑھاکر 6لاکھ 65ہزار روپے ماہانہ اور صوبائی وزراء کی تنخواہ 9لاکھ 60ہزار روپے کردی گئی ہے۔ تنخواہوں میںیہ سالانہ اضافہ ایک ارب 32کروڑ 29لاکھ روپے ہوگا۔ وزیرِاطلاعات پنجاب محترمہ عظمیٰ بخاری سے جب یہی سوال کیاگیا تواُنہوں نے فرمایا ’’کیا ایک لاکھ 70ہزار روپے میں وزراء کاگزارہ ہوسکتا ہے؟‘‘۔ بجاارشاد! مگروہ یہ بھی بتا دیتیں کہ وزراء کوڈرائیور، گاڑی، پٹرول، رہائش، یوٹیلٹی بلز، ٹی اے ڈی اے اور فری ریلوے اور ایئرٹکٹس کے علاوہ بھی کئی سہولیات میسرہوتیں تو بہتر ہوتا۔ ویسے عرض ہے کہ پیٹ ہرکسی کے ساتھ لگاہے۔ تَن کے کپڑے اور رہائش بھی ہرکسی کی ضرورت ہے۔ پھرحکومت کی مقررکردہ کم ازکم تنخواہ 37ہزار روپے میں کیسے گزارہ ہو سکتا ہے؟۔ حکومت اشرافیہ سے توٹیکس لینے سے گھبراتی ہے مگر ’’برق گرتی ہے تو بیچارے تنخواہ داروں پر‘‘ (اقبالؒ سے معذرت کے ساتھ)۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ جن ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میںیہ محیرالعقول اضافہ کیاگیا ہے وہ اتنے امیرہیں کہ ایک ایک رُکنِ اسمبلی کروڑوں روپے صرف کرکے منتخب ہوتاہے اِس لیے اُسے روزی روٹی کی مطلق فکر نہیں ہوتی ، پھریہ اضافہ کیوں؟۔