انجم نثار، علی حسام اور مصباح الرحمن کی خدمت میں!

گزشتہ دنوں میری ملاقات فائونڈر کے بڑے اہم رہنما کے ساتھ کھانے کی میز پر ہوئی۔ مقصد ملاقات فائونڈر کے بارے میں ایک دوسرے کو ایسی معلومات شیئر کرنا تھیں جو ٹریڈ سیاست کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ میرے ذرائع کے مطابق موجودہ فائونڈرکی باڈی کے اندر بہت سے معاملات گزشتہ دو ماہ سے چل تو رہے ہیں اور فائونڈر کے اندر ہی دو تین گروپ فائونڈر کو کھڑا کرنے کے دعویدار بھی ہیں مگر ایک نقطہ پر کہ کیا فائونڈر نئی قیادت، نیا ماحول اور نئی سوچ رکھنے والوں پر اپنے بند دروازے کھولے گا؟ اور فائونڈر کے جو لوگ اختیارات کی تقسیم کی باتیں کر رہے ہیں کو اختیارات دے کر اس کے فائونڈر کے اندر ایسی روح پھونکی جائے جو آنے والے انتخابات سے قبل میدان میں اتر سکے۔ اب معاملات کہاں پہنچتے ہیں، ملاقاتیں کیا رنگ لاتی ہیں۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ صرف چند دنوں کی بات ہے مگر میرے پاس جو کنفرم بات ہے وہ یہ کہ فائونڈر کا پیاف کے ساتھ آج سے پانچ ماہ قبل جو نکاح ہوا تھا وہ اب ٹوٹنے والا ہے کہ فائونڈر کے چند بڑوں نے بھی اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ 2026ء کو لاہور چیمبر کے انتخابات میں وہ بغیر کسی اتحاد کے حصہ لے گی۔ اس سلسلے میں جب میں نے پیاف کے ایک بڑے لیڈر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ کا فائونڈرکے ساتھ اتحاد ٹوٹنے والا ہے تو ان کا یہ موقف تھا کہ ہماری ذلت آمیز شکست میں فائونڈرکا ہی تو ہاتھ ہے اور ہم سے باقاعدہ ایک پلاننگ کے ساتھ ہاتھ کیا گیا۔ میں یہاں یہ بات بھی بتا رہا ہوں کہ پیاف اور فائونڈرکے چند بڑے علی حسام کے پائنیر گروپ کو جائن کرنے والے ہیں اور مذاکرات فوٹو شوٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مقامی ہوٹل میں فائونڈر کی ایک میٹنگ کے دوران کہا گیا کہ ہمارے دو تین صدور علی حسام کو جائن کرنے والے ہیں جبکہ چیئرمین نے کہا کہ میرا کوئی صدر علی حسام کو جائن نہیں کرے گا جبکہ میری اطلاع کے مطابق جن کے نام میرے پاس ہیں دو سابق صدور علی حسام کو تقریباً جائن کر چکے ہیں۔ چلتے چلتے چند گزارشات انجم نثار، علی حسام اور میاں مصباح الرحمن کی خدمت میں کہ آپ جانتے ہیں کہ انتخابات کسی بھی ملکی سطح پر ہوں یا ٹریڈ باڈی کی تبدیلی کا خوبصورت حصہ ہوتے ہیں جو پارٹی یا گروپ بہترین پرفارمنس اور اپنی تنظیم کو اچھے طریقے سے آرگنائزر کرکے انتخابی عمل کے میدان میں اترتا ہے تو جیت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے الزامات کا لگنا اور لگانا یہ ہماری سیاسی اور کاروباری زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔ ہم کیوں ہارے، وجہ تلاش کرنے کی بجائے ہم جیتنے والے پر دھاندلی کی مہر ثبت کر دیتے ہیں۔ میں پہلے بھی اپنے انہی کالموں میں اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ تاجر برادری سوسائٹی میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اور اس کا سفید کالر ہی اس کی عزت و شان ہے لہٰذا الزامات کی آڑ میں اس سفید کالر کو داغ نہ لگنے دیں۔ اگر اس پر داغ لگ گیا جیسا کہ کچھ لوگ معاملات کو اس طرف لے جا رہے ہیں۔ دیکھیں ہارنے والوں نے تو الزامات لگانے ہوتے ہیں مگر جیتنے والے کیوں سوشل میڈیا پر ان کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک جیتنے والوں کی لیڈرشپ پر یہی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتخابی تلخیوں، رنجشوں، الزامات اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے راستوں کو بند کرے۔ حیرت ہے کہ نجانے جیتنے والے اپنے سینوں کو کیوں کشادہ نہیں کرتے۔ہارنے والوں کے پاس اور ان کی طرف دوستی اور اخوت کا ہاتھ بڑھائیں، ان کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیں جبکہ ہارنے والے بجائے الزامات کے ان کو موقع دیں۔ انتخابات تو پھر ہونا ہیں۔

تو اِدھر اْدھر کی بات نہ کر یہ بتا قافلہ لٹا کیوں
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
لیڈرشپ اور اس کے کیا تقاضے ہوتے ہیں گو یہ ایک طویل بحث ہے۔ آج لاہور کی ٹریڈ سیاست کی بڑی لیڈرشپ میں انتخابات کے بعد ایک نہیں، دو تین بڑے نام سامنے آئے جن کے اوپر لاہوری ٹریڈ باڈی کے مستقبل کا بڑا دارومدار ہے اور اگر حقائق کی بات کروں تو پھر سب سے بڑی ذمہ داری جیتنے والی لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے کہ آنے والے دو سالوں میں کم از کم تاجر برادری کے درمیان تمام انتخابی تلخیوں اور رنجشوں کو ختم کرائے اور سب کو ساتھ لے کر چلے۔ آج لاہوری تاجر برادری انجم نثار، علی حسام، میاں مصباح الرحمن، شیخ آصف، شہزاد ملک اور دوسری قیادتوں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ بڑے دل کے ساتھ مثبت کردار ادا کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے ماحول کو اور خوبصورت بنائیں۔ ابھی اسی طرح کا ایک خوبصورت منظر سب نے دیکھا جب لاہور چیمبر کے نائب صدر شاہد نذیر کی بیٹی کی شادی خانہ آباد کی تقریب میں ہارنے اور جیتنے والے سبھی ہاتھ ملاتے ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے۔ اب دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانے اور پھر آنے والے دنوں میں کئی ایسی تقریبات میں ان سب نے پھر خوشیوں کی ایک چھت تلے اکٹھے ہونا ہے تو پھر کونسی تلخیاں، دشمنیاں، رنجشیں باقی رہ جاتی ہیں جو آپ کو ایک دوسرے سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ کیوں آپ نے ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنا رکھا ہے۔ اب جب یہ بات طے ہے کہ اگلے دو سال اتحادی گروپس کے ہیں تو پھر ان کو کام کرنے دیں۔ یہاں ہارنے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ تمام ٹریڈ باڈیز کے بہترین مستقبل کیلئے خوبصورت مثال قائم کریں اور لاہور چیمبر کی موجودہ قیادت کو نہ صرف ان کی جیت پر مبارک باد دیں بلکہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے تاجروں کے بڑھتے مسائل کو حل کریں جو آج وقت کی ضرورت ہیں اور بکھری ٹریڈ باڈیز کو ساتھ ملائیں۔ اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا، ہارنے والے کب تک DGTOیا بڑی کلاس یا عدالتوں کی لڑائی لڑیں گے۔ کب تک یہ سفید کالر طبقہ ایک دوسرے کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرتا رہے گا۔ کب تک ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اب یہ دور باسز کا نہیں، ینگسٹر کا ہے لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ اختلافات کے خاتمے کا آغاز دونوں اطراف کی لیڈرشپ کرے۔ یہاں پہل یا تو انجم نثار، علی حسام کو کرنا ہوگی یا پھر میاں مصباح الرحمن آگے آئیں۔ آج ٹریڈ باڈی میں اختلافات کا نہیں، رہبری کا سوال ہے۔

اور آخری بات…
انتخابات کے موقع پر گروپ بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں کہ کیا پتہ آج جیتنے والا کوئی گروپ آنے والے کل کے انتخابات میں آپ کے ساتھ مل جائے یا آپ اپنے دروازے اوروں کے لئے کھول دیں جن پر آج الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سیاست میں وقت اور حالات دیکھے جاتے ہیں جبکہ چائے اور میز پر بعض اوقات اختلافاتی سیاست دوستی میں بدلتی نظر آتی ہے… باقی رب دیاں رب ای جانے…!