دعا اور کلام کا اثر

اگلے روز جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک کلپ دیکھا جس میں انہوں نے فرمایا کہ اسلام میں ورد کا کوئی تصور نہیں۔ نہ جانے ان کا یہ بیان کس تناظر میں تھا مگر میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ قادیانیوں کے معاملے میں ان کا یہ کہنا کہ مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ میں اس شخص کو مسلمان نہ کہوں یا نہ مانوں جو اپنے آپ کو مسلمان کہے۔ میرا اس سے بھی اختلاف ہے۔ مسلمان کی تعریف پوری دنیا میں سب لوگ جانتے ہیں اور باقی عقائد کے ساتھ اللہ کے نبی آقا کریمؐ کو آخری نبی ماننا اس کی لازمی شرط ہے۔

پھر فرماتے ہیں کہ کسی حدیث اور قرآن میں مجھے یعنی اُن کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دیں اور نہ ہی ایسا کہیں موجود ہے تو پھر مسجد ضرار کے مسمار کا حکم اور ذکر ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہئے۔ مسجد ضرار میں بھی منافقین اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے جس کو گرانے کا حضورؐ نے حکم دیا۔ بہرحال میں کوئی عالم نہیں ہوں کہ ایسی باتوں میں الجھ جائوں مگر حق بات کہنا ہر انسان کا فرض ہے، ہر قوم اور مذہب کے ماننے والے اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں اور اس کے اقرار میں کوئی غیر مسلم قرار پاتا ہے تو اس میں غامدی صاحب کو دوبارہ غور فرمانا چاہئے۔
میرا موضوع یہ نہیں البتہ چند واقعات ہیں جنہوں نے مجھ پر اثر چھوڑا۔ زندگی و موت اور اللہ کے احکامات کا تو اللہ ہی کو علم ہے مگر دعا میں بے پناہ قوت اور معجزات مضمر ہیں۔ البتہ چار باتوں پر غور ضرور فرمائیں پھر آگے چلتے ہیں۔ پنجاب کونسل آف آرٹس گوجرانوالہ ڈویژن کے ڈائریکٹر آڈٹ جناب محمد شفیق بٹ کے مطابق ویسے تو چار سو سال قبل مسیح سقراط، جو میرے نقطہ نظر کے مطابق توحید پرست ہو چکا تھا، نے کہا تھا۔ شکر کثیر، عبادت ناگزیر، گناہوں سے توبہ، انسانوں کا معمول ہونا چاہئے۔ دعا کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کریم ضرور قبول کرتا ہے اور اگر روح و قلب سے پورے وجود کو دعا کے سانچے میں ڈھال دیا جائے تو انسان کا بھلے کچھ بھی عقیدہ ہو، اس کی دعا قبولیت کا شرف پاتی ہے۔

دعا انسانوں کیلئے اللہ کا بہت بڑا تحفہ اور سہارا ہے۔ اللہ کے کلام کا اثر یا کسی کلام کا ورد اثر لاتے ہوئے میں نے زندگی میں ان گنت بار دیکھا۔ نام یاد نہیں، ایک صحابی تھے، وہ ایک دعا مانگا کرتے تھے جو کلام الٰہی ہی تھا۔ ان کے جاننے والے ایک یہودی نے پوچھا کہ اسی کا ورد یا تلاوت کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس کے پڑھنے سے بیماری کیا موت بھی نہیں آتی۔ ایک دن ان صحابی کو فالج کا شدید حملہ ہوا اور خبرگیری کیلئے ان کا یہودی دوست آ گیا اور اس نے کہا کیا بنا اس ذکر یا دعا کا؟ تو صحابی نے جواب دیا کہ میں نے خود آج اس کو ترک کیا کہ اللہ کریم اپنا حکم نافذ کر دے۔ میرا ایک ہم نام دوست بتاتا ہے کہ ایک دن میں واہگہ ریلوے سٹیشن پر بھارت سے آنے والی ٹرین پر ڈیوٹی کر رہا تھا۔ ایک غریب فیملی جو اکثر وڈیروں کے سامان لاتی لے جایا کرتی تھی ان کے بدن کے کپڑے بھی مناسب نہیں ہوتے تھے۔ ایک عمر رسیدہ عورت، اس کی بہو اور بیٹا ساتھ تھے۔ ان کے پاس چار پانچ ٹرالی سامان تھا جس میں آرٹیفیشل جیولری، پان، ساڑھیاں وغیرہ تھیں۔ کسی نے اس کو میرے پاس بھیج دیا گویا اس کے ساتھ شرارت کی کیونکہ میرے کبھی کسی ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعلقات تھے اور نہ ہی لین دین میں شامل تھا۔ مشرف دور کی مانیٹرنگ ٹیمیں بھی برائے نام رہ گئی تھیں وہ بھی کسٹم والوں سے بھی چار ہاتھ آگے تھے۔ متعلقہ انچارج کسٹم ایڈیشنل کلکٹر، کیپٹن رینجر اور دیگر ایجنسیاں موجود تھیں۔ میں نے اس فیملی کی معمر خاتون کو منہ میں کچھ کلمات پڑھتے دیکھا چونکہ میرا کلمات، آیات اور ورد وغیرہ پر بہت اعتماد ہے۔ میں نے اس کو پڑھنے سے منع کر دیا مگر وہ عورت مزید زیادہ تیز تیز پڑھنے لگی۔ مجھے اس بات کا خیال تھا کہ اس کا سامان تو میں چھوڑ نہیں سکتا اگر سامان جو پکڑا جاتا ہے تو اس کا اس ورد یا پاک کلام سے ایمان اُٹھ جائے گا۔ 5/6 ٹرالیوں میں سے قابل ضبط سامان الگ کر دیا گیا۔ اس کا بیٹا اور بہو پریشان تھے اور وہ عورت برابر کچھ دعائیں پڑھتی چلی گئی کہ اتنے میں کوئی اعلیٰ آفیسر اور سرکاری درآمد کی گئی 10ٹرالیاں لے آیا جو بغیر ڈیوٹی ٹیکسز جانا تھیں۔ ایک اہلکار آیا، اس نے کہا کہ کچھ نیکی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ہاں تو اس نے 10 اپنی اور 3 اس عورت کے سامان کی ٹرالیوں کا گیٹ پاس لیا۔ وہ حفاظت سے باہر چلی گئی اور میں حیران تھا کہ اس کی دعا نے کیسے اس کا وہ سامان جو حرام تو نہ تھا مگر اس کی مقدار قابل ضبطی تھی بچا لیا۔ اسی طرح ایک صوفی بزرگ تھے قاری محمد عبدالوہاب صدیقی صاحب، ان کا 12فٹ مربع کا کمرہ مہمان خانہ تھا۔ برابر میں بیوی کا کمرہ اور 10 فٹ مربع کا صحن تھا لیکن اس روحانی بزرگ کے گھر مجھے بہت سکون ملتا۔ ایک دن میں ان کے پاس مسجد میں تھا میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیٹ میں درد ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیٹ جائیں آپ کو دم کرتا ہوں۔ ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز جناب ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی ان کے نیازمند تھے۔ انہوں نے مجھے دم کرنا شروع کیا تو مجھے خیال آیا کہ یہ پڑھ کر مجھے پھونکیں مار رہے ہیں اس کا میرے پیٹ پر کیا اثر؟ مجھے دردسے آرام آگیا۔ پھر آج سے بیس سال پہلے قاری صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے انہیں واپس چھوڑنے کیلئے گاڑی پر بٹھایا اور بتایا کہ مجھے بائیں گھٹنے میں درد ہوتا ہے۔ قاری صاحب نے کہا ابھی ٹھیک کیے دیتے ہیں دم کر کے تیسری پھونک ماری درد جاتا رہا اور آج تک الحمد للہ ٹھیک ہے۔

اللہ ان کی مغفرت کرے۔ دعا، پاک کلام اور مالک کے ذکر کا انسانوں پر مثبت اثر ہوتا جبکہ لغو باتیں کردار پر منفی اثرات چھوڑتی ہیں۔