(گزشتہ سے پیوستہ)
جیسے اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے ہم نے زیارات کے لیے سات سیٹوں والی ایک ویگن نما گاڑی کرایہ پر لی۔ صبح نمازِ فجر کی مسجد نبوی ؐ میں ادائیگی کے بعد ناشتہ کرنے کے لیے ہم اپنے ہوٹل میں آ گئے۔ جلدی جلدی ناشتہ کر کے ہم دوبارہ مسجد نبوی ؐ کے بیرونی گیٹ نمبر 365سے مسجد نبوی ؐکے جنوبی سمت کے انتہائی کُھلے صحن میں پہنچے تو فون پر ہمارا رابطہ کرائے پر لی گئی گاڑی کے ڈرائیور اشتیاق صاحب سے ہوا۔ اشتیاق جس نے اپنا تعلق شاید گوجرانوالہ سے بتایا تھا اور غالباً گاڑی کا مالک بھی تھا۔ اس نے ہمیں گیٹ نمبر 365کے قریب ہی انتظار کرنے کو کہا اور چند منٹ میں وہاں پہنچ کر ہمیں اپنے ساتھ مسجد نبوی ؐ کی انڈر گرائونڈ پارکنگ جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی کی طرف لے کر چلا۔ یہ پارکنگ اسی سمت میں قریب ہی مردوں کے لیے وضو اور دیگر ضروریات کے لیے بنے واش رومزوالی بڑی عمارت یا کمپلیکس سے ملحق انڈر گرائونڈ میں بنی ہوئی ہے، واش رومز کی عمارت کی برقی سیڑھیوں سے اس پارکنگ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہم اشتیاق کی معیت میں جلد ہی اس پارکنگ میں پہنچ گئے ۔ مجھے یا د آیا کہ ۱۹۸۳ء میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے تھے تو اس وقت مسجد نبوی ؐ کے اس حصے میں تعمیر و توسیع کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے بعد پاکستان روانگی کے لیے ہم نے بس پر جدہ جانا تھا تو اسی زیرِ تعمیر پارکنگ میں کھڑی بس کے ڈرائیور کی مسجد نبوی ؐ کے شمال مشرقی کونے میں اپنی قیام والی عمارت تک جہاں اب بڑے بڑے ہوٹل اور شاپنگ مال بن چکے ہیں رہنمائی میرے ذمہ لگی۔ بس کا لحیم شحیم مصری ڈرائیور عربی کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا اور میں عربی بول چال سے نابلد۔ بڑی مشکل سے اشاروں کنایوں سے کام لیتے ہوئے اسے بس سمیت قیام والی تین منزلہ عمارت کے سامنے کھُلی جگہ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ جدہ تک اس ڈرائیور کے ساتھ ہمارا بس کا سفر کیسا رہا اور وہ ہمارے ساتھ کس طرح پیش آتا رہا اس کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔ اِس وقت واپس اشتیاق ڈرائیور کے ساتھ زیارات کے سفر کے تذکرے کی طرف لوٹتے ہیں۔
اشتیاق کے ساتھ ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو اشتیاق کا کہنا تھا کہ پہلے ہم جبلِ اُحد کی زیارت کے لیے جائیں گے۔ جبلِ اُحد مدینہ منورہ کا وہ مشہور پہاڑ ہے جس کے بارے میں نبی پاک ؐ کا فرمان ہے ـ "اُحد کا پہاڑ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور میں اُحد سے محبت کرتا ہوںـ” یہ مسجد نبوی ؐ سے تقریباً پانچ کلومیٹر فاصلے پر جانب شمال واقع ہے۔ اس کے دامن میں شوال3 ہجری میں مشرکینِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان حق و باطل کا دوسرا بڑا معرکہ غزوہِ اُحد لڑا گیا۔ اس میں اسلامی لشکر کی تعداد 700 اورمشرکینِ مکہ کے لشکر کی تعداد 3000 تھی۔ مسلمانوں کو ابتدا میں کامیابی نصیب ہوئی اور ایسے لگا کہ مشرکینِ مکہ پسپائی اختیار کر رہے ہیں کہ اس دوران اُحد پہاڑ کے ایک کم اونچے ٹیلے ” جبلِ عینین” پر نبی پاکؐ نے جن پچاس تیر اندازوں کو ہر صورت میں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے کی تاکید کی تھی اُن میں سے زیادہ تر نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ اس پر خالد بن ولید جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا اور مشرکینِ مکہ کے ایک دستے کی قیادت کر رہے تھے انہوں نے جبلِ عینین کا چکر کاٹ کر عقب سے اسلامی لشکر پر حملہ کر دیا ۔ اس اچانک اورناگہانی حملے سے اسلامی لشکر میںکچھ افرا تفری اور سراسیمگی پھیل گئی۔ صحابہِ کرام ؓ کی زیادہ تعداد اِدھر اُدھر بکھر گئی اور نبی پاک ؐ کے ساتھ کچھ ہی جانثار ساتھی رہ گئے جو کفار کی طرف سے تیروں اور پتھروں کی بارش کو روک رہے تھے۔ پتھر لگنے سے آپ ﷺ کے چہرہِ مبارک پر زخم اور ایک دندان مبارک شہید ہو گیا۔ اس دوران نبی پاک ؐ کی شہادت کی افواہ بھی پھیل گئی۔ جس سے اسلامی لشکر میں اور بھی مایوسی پیدا ہوئی۔ ابوسفیان کی سرکردگی میں مشرکینِ مکہ کے لشکر نے اسے اپنی بڑی کامیابی جانا۔ حق و باطل کے اس بڑے معرکے میں ستر (70) صحابہِ کرام ؓ شہید ہوئے جب کہ ہلاک ہونے والے کفار کی تعداد ایک روایت کے مطابق بائیس(22) اور دوسری روایت کے مطابق تینتیس (33)بتائی جاتی ہے۔ شہادت کا رتبہ پانے والوں میں نبی پاک ؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓ جنہیں اس غزوے میں شہادت کی وجہ سے سید الشہدا کا لقب ملا، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت عبداللہ بن جحشؓ جیسے نامی گرامی اور َجید صحابہِ کرام شامل تھے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ آلِ عمران میں غزوہِ اُحد کے حالات وواقعات کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر 153میں ارشادِ ربانی ہے ” جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مُڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسولؐ اس جماعت میں( کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکا ر رہے تھے ۔ پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تا کہ تم اُس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی تھی رنج نہ کرو اور اللہ تمہارے کامو ں سے خبر دار ہے۔”
غزوہِ اُحد کا تذکرہ اور طویل ہو سکتا ہے لیکن جبلِ اُحد کی زیارت کے تذکرے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ صبح کا وقت تھا اور مدینہ کی شاہرائوں پر کچھ زیادہ رَش نہیں تھا۔اشتیاق نے جلد ہی ہمیں جبلِ اُحد کے دامن میں پہنچا دیا۔ اُس نے وہاں حال ہی میں بنی ہوئی بڑی مسجد کے سامنے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور مسجد کی دوسری سمت میں کھُلے احاطے کی طرف ہمیں لے چلا۔ ہمارے سامنے قدِ آدم اونچے آ ہنی جنگلوں کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھُلے احاطے میں پتھروں کی ایک آدھ فٹ اونچی دیوار سے گھرا ایک مستطیل احاطہ تھا۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ کی قبر مبارک ہے تو اس کے ساتھ ہی حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی قبریں بھی ہیں۔ بائیں طرف کچھ فاصلے پر وہ ٹیلہ (جبلِ عینین) نظر آ رہا تھا جسے تیر اندازوں کے ٹیلے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی طرف کچھ لوگ آ جا رہے تھے اور کچھ اس پر کھڑے تھے۔ ہماری خواتین کے لیے اس پر چڑھنا مسئلہ ہوتا اس لیے ہم اُدھر نہ گئے اور وہیں آہنی جنگلوں کے ساتھ کھڑے ہو کر شہدائے اُحد کے لیے دعائیں مانگیں اوراشتیاق کے ساتھ واپس گاڑی کی طرف آ گئے۔
اشتیاق ہمیں گاڑی پر بٹھا کر سیدھا آگے چلا اور بتانے لگا کہ آگے جبلِ اُحد کے دامن میں وہ چھوٹی سی تنگ گھاٹی یا چھوٹاسا غار ہے جہاں مشرکینِ مکہ کے لشکرکے اُحدکے دامن سے لوٹ جانے (پسپائی اختیار کرنے) کے بعد نبی پاک ؐ نے زخمی حالت میں کچھ دیر کے لیے آرام کیا تھا۔ یہ تنگ گھاٹی یا چھوٹا سا غار سڑک سے کچھ اونچائی پر ہے۔ ہم سب نے بڑے ذوق و شوق سے اس کی زیارت کی بلکہ شگاف کی ماننداس کے کھلے دہانے جو ایسے لگے رہا تھا جیسے پہاڑ کے دو حصوں کے الگ ہونے سے بنا ہو، تک بھی گئے۔ وہاں سڑک کے کنارے ٹین کی کھڑی چادروں کی چار دیواری کے اندر ایک چھوٹاسا احاطہ ہے جس میں لوگ نفل وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ ہم نے وہاں دوگانہ نفل ادا کیے۔ اس کے بعد اشتیاق کے ہمراہ گاڑی کی طرف گئے۔ گاڑی پر سوار ہوئے تو اشتیاق نے بتایا کہ ہماری اگلی منزل غزوہِ خندق کی جگہ یا مقام اور وہاں بنی ہوئی تاریخی اور یاد گار مساجد کی زیارت ہے۔ (جاری ہے)