مذاکرات، کون کسے کیا دے سکتا ہے؟

پی ٹی آئی ایک طویل عرصے سے سیاسی، جمہوری حکومت مذاکرات سے انکاری تھی۔ اس کے بزرجمہر ٹی وی پروگراموں میں صرف ان سے مذاکرات کے حق میں دلائل دیتے تھے جن کے پاس ان کے مطابق طاقت ہے یعنی فوج مگر اس ’’ریوڑ‘‘ نے اس وقت ایک یوٹرن لیا جب اس کی فائنل کال ایسی ناکام ہوئی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، پہلی بار ایک وزیراعلیٰ اور لیڈر کی اہلیہ کارکنوں کو چھوڑ کے بھاگ نکلے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی لیڈروں کی بیگمات اوربیٹیوں کو جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے مگر وہ ایسے لڑی تھیں کہ انہوں نے مردانہ وار مقابلے کا محاورہ اپنے اپنے دور میں زنانہ وار مقابلے سے بدل کے رکھ دیا تھا۔ میری بیگم نصرت بھٹو سے بھی ملاقات رہی اور بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کوبہت قریب سے دیکھا۔ اس روز بھی جب ایک ڈکٹیٹر نے ان کی گاڑی کو لفٹر سے اٹھا لیا تھا اور گھنٹوں ہوا میں معلق رکھا تھا۔ ان کے ہمراہ تہمینہ دولتانہ بھی تھیں۔ یہ خواتین ہمت، جرأت اور بہادری کا استعارہ تھیں مگر ڈی چوک سے فرار ہونے والی خاتون نے تو فاطمہ جناح، نصرت بھٹو اور کلثوم نواز کی سیاسی وراثت ہی ڈبو کے رکھ دی۔

میں نے کہا، پی ٹی آئی ایک طویل عرصے سے سیاسی اور جمہوری حکومت سے مذاکرات سے انکار ی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے پھر یوٹرن لیا مگر شائد ان کا فیصلہ وقت گزرنے کے بعد تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ فائنل کال سے پہلے مذاکرات کا فیصلہ کرتے‘ اپنا احتجاجی ریوڑ سنگ جانی کی مویشی منڈی میں بٹھا لیتے توحکومت مذاکرات پر تیار ہوسکتی تھی کیونکہ اس وقت تک ان کے احتجاج اور دھرنے ایک تھریٹ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن جس طرح گھر سے بھاگی ہوئی عورت کی معاشرتی عزت نہیں ہوتی اسی طرح ڈی چوک سے بھاگی ہوئی پارٹی کی سیاسی عزت کیسے ہوسکتی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ حکومت ان کے ساتھ اسی طرح کھیل رہی ہے جس طرح کوئی اس فقیر کے ساتھ کھیلتا ہے جس نے چھٹی منزل سے بیل کر کے فلیٹ کے مالک کو بلایا اور اس سے بھیک مانگی۔ مالک بھی حکومت کی طرح سیانا تھا وہ فقیر کو اپنے ساتھ چھٹی منزل پر سیڑھیوں کے ذریعے لے گیااور اوپر جا کے کہا، جائو بابا، معاف کرو۔ عمر ایوب نے کہا، وہ مذاکرات میں پہل نہیں کریں گے۔ لگتا ہے وہ ایک ہفتے سے ہونے والی بے عزتی ’ فِیل‘ کر گئے ہیں۔

مذاق ایک طرف، یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ مذاکرات میں فریقین ایک دوسرے کو کیا دے سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی تعمیر ہی تخریب اور نفرت کے جذبات سے ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو جائزیت دے سکتی ہے؟ اسے آئینی، پارلیمانی مدت کی قبولیت دے سکتی ہے؟ اپنے نفرت انگیز بیانیے کو واپس لے سکتی ہے؟ معاملہ یوں ہے کہ پی ٹی آئی کا لین دین حکومت سے زیادہ فوج کے ساتھ بن رہا ہے۔ فوج سے اس نے وہ کیا جو پینسٹھ کی جنگ میں بھارت نہیں کرسکا کہ اسے ہم نے بی آر بی نہر پر ہی روک لیا تھا مگر یہ دشمن ہمارے اندر سے نکلا۔ اس نے جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہائوس تو ایک طرف رہے شہداء کی یادگاروں تک کو نہیں چھوڑا اور اس وقت بھی عسکری مصنوعات کے بائیکاٹ کی احمقانہ مہم چلا رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ عقل اور منطق سے عاری اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ معیاری پاکستانی مصنوعات کا بائیکاٹ ہو اور اسرائیلی پراڈکٹس کی خریداری بڑھ جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر حکومت، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کر لے، اس کے مطالبات مان لے (جن پر ہم بعد میں آگے چل کر بات کرتے ہیں کہ کیا وہ مانے جا سکتے ہیں) تو وہ سول نافرمانی کی تحریک ختم کر دے گی۔ اس پر میرا ایک قہقہہ قبول فرمائیے۔ ایک تیسرے درجے کا تجزیہ کار بھی جانتا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک ایک پھوکا کارتوس ہے جس کے ذریعے یہ اپنی بندوق سے ہوا بھی نہیں نکال سکتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ یہ توپ اس وقت بھی چلا چکے جب فیض حمید جیسا شاطر جرنیل آپ کو طاقت دے رہا تھا تب بھی سب سے پہلے گیس کا بل جمع کروانے والا وہ شخص تھا جس نے کہا تھا کہ اس کی بیوی اور وہ ٹھنڈے پانی سے نہیں نہا سکتے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی ممی ڈیڈی نسل عمران خان کے لئے گھر کی بجلی، گیس اور انٹرنیٹ کنکشن کٹوا کے رہ سکتی ہے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ان احمقوں کی پہلی امید بیرون ملک چند ہزار پاکستانیوں سے ہے کہ وہ عمران خان کی محبت میں بینکنگ چینل کی بجائے ہنڈی سے ڈالر، پائونڈ یا ریال بھیجیں گے۔ یہ اُمید اس لئے بے کار اور فضول ہے کہ دنیا اب ہنڈی حوالہ کرنے والوںکو ڈرگ ڈیلرز سے زیادہ سختی سے ڈیل کرتی ہے اور یہ کہ اگر آپ پاکستان میں ایسی حرکت کریں گے تو اس پر پچیس سے سو ملین روپوں تک جرمانہ، دس سال کی قید ہے۔ میری رائے میں حکومت کو کہنا چاہئے کہ تم یہ کر کے دیکھ لو، جیسا کہ وفاقی وزیر اطلاعات برادرم عطاء اللہ تارڑ نے کہا، فتنہ السیاست، تم یہ کر کے دیکھ لو این آر او پھر بھی نہیں ملے گا۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو کچھ نہیں دے سکتی کہ اس سانپ کے زہر والے دانت توڑے جا چکے۔ اس کے سنجیدہ ذہن مان چکے کہ سوشل میڈیا نے عمران خان کو طاقت دینے کی بجائے کمزور کیا ہے اور پارٹی عقل اور تجربے والی شخصیات کی بجائے کچھ ان دیکھے چہروں والے ٹرولز کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ عمران خان اگلے پیر کومزید سزائیں پانے جا رہے ہیں سو ایسے میں حکومت بھی اسی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ فتنہ السیاست کی فتنہ گری کے لئے سب سے بڑے مطالبے یعنی عمران خان کی رہائی پر کوئی ڈیل کرسکے کیونکہ نو مئی کامعاملہ ہو یا چھبیس نومبر کا، یہ حکومت سے زیادہ سیکورٹی اداروں کے مسائل ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان رہا ہو کے کوئی طوفان برپا کر سکتے ہیں کیونکہ اگروہ ایسا کچھ کر سکتے ہوتے تو اڑھائی پونے تین برس پہلے اپنی حکومت کے خاتمے پر ہی کرلیتے مگر وہ چند ٹھس مظاہروں اور ایک ناکام لانگ مارچ کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ مسئلہ معافی کا ہے اور اگر نو مئی کی معافی ہو گئی تو اگلا حملہ مدارس کی رجسٹریشن کے ایشو پر مولانا فضل الرحمان کے ڈنڈا برداروں کا بھی ہوسکتاہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جس فتنے پر قابو پانے کے لئے جس صبر اور ہمت کے ساتھ مشکل وقت گزار لیا ہے میں قائل ہوں کہ وہ عصر کے وقت روزہ نہیں توڑ سکتی۔ پی ٹی آئی جو ریلیف براہ راست فوج سے نہیں لے سکی وہ ڈیڈھ ہُشیار بن کے حکومت سے لینا چاہ رہی ہے مگر نوازشریف ہوں، شہباز شریف ہوں یا آصف زرداری، وہ روٹی کو چوچی نہیں کہتے، وہ نوسربازوں کا پیش کیا گیابھنگ والا لڈو نہیں کھائیں گے۔