عصرِ جدید اور مصنوعی ذہانت کا عروج

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں، انسانی زندگی کے ہر پہلو پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کا مرکزی کردار مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ہے۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس نے نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کیا بلکہ ہمارے روزمرہ کے معمولات، معاشرتی ڈھانچے، اور اقتصادی نظام کو بھی ایک نئی شکل دی ہے۔

مصنوعی ذہانت کا آغاز ایک خواب کی مانند تھا، جہاں انسان نے یہ سوچا کہ کیا مشینیں انسانی دماغ کی طرح سوچ سکتی ہیں؟ آج یہ خواب حقیقت میں ڈھل چکا ہے۔ کمپیوٹرز اور مشینیں اب نہ صرف انسانی ہدایات پر عمل کر رہی ہیں بلکہ خود فیصلہ سازی کی صلاحیت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس نئے دور کے لیے تیار ہیں؟ جب کہ مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا اثر ہمارے روزگار، تعلیمی نظام، اور یہاں تک کہ ہمارے اخلاقی اصولوں کو چیلنج کر رہا ہے۔

یووال نوح ہراری، جو اپنی کتاب "سیپینز” نوعِ انسانی کی مختصر تاریخ” کے ذریعے عالمی شہرت رکھتے ہیں، نے حال ہی میں اپنی نئی تصنیف "نیکسس” پیش کی ہے۔ اس کتاب میں ہراری نے جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI)، اور اس کے معاشرتی اثرات پر تفصیلی بحث کی ہے۔

"نیکسس” میں ہراری نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) نے 2014 اور 2015 میں "سکائی نیٹ” نامی ایک مصنوعی ذہانت کا نظام متعارف کرایا، جو آن لائن تحریروں، سفری ریکارڈز اور سوشل میڈیا پوسٹوں کی بنیاد پر مشتبہ دہشت گردوں کی نشاندہی کرتا تھا۔ اس نظام نے دنیا کے مختلف ممالک کے کروڑوں موبائل صارفین کا ڈیٹا جمع کیا، جس سے ان کی نگرانی ممکن ہوئی۔

ہراری نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ ایڈورڈ سنوڈن کی 2013 کی لیکس کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے سم کارڈ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کو ہیک کر کے اس کی تمام سمز کا ڈیٹا، خفیہ کوڈز اور اینکرپشن کیز چوری کیں، جس سے انھیں موبائل فونز تک مکمل رسائی حاصل ہوئی۔
"نیکسس” میں ہراری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کس طرح جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی نے نجی زندگی کی حدود کو متاثر کیا ہے اور عالمی سطح پر نگرانی کے نئے طریقوں کو جنم دیا ہے۔ یہ کتاب قارئین کو دعوت دیتی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں اپنی آزادی اور پرائیویسی کے بارے میں نئے سوالات پر غور کریں۔

ہراری کی یہ تصنیف ان تمام افراد کے لیے اہم ہے جو ٹیکنالوجی، سکیورٹی، اور انسانی حقوق کے مابین توازن کے بارے میں گہری بصیرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ "نیکسس” نہ صرف موجودہ دور کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک سوچنے پر مجبور کرنے والا لائحہ عمل بھی پیش کرتی ہے۔

یوال نوح ہراری نے مشہور کتاب "Homo Deus: A Brief History of Tomorrow” میں انسانی سماج کا ایسا تصور پیش کیا ہے جو ٹیکنالوجی کی نئی جہات کو ظاہر کرتا ہے۔ ہراری اس تصور کو مستقبل کے ممکنہ راستوں اور انسانیت کے اگلے ارتقائی مراحل کی وضاحت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نیکسس بنیادی طور پر ٹیکنالوجی، ڈیٹا اور انسانی دماغ کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے جو آنے والے دور میں انسانی زندگی کو بدل سکتا ہے۔نیکسس ایک ایسی دنیا کی نمائندگی کرتا ہے جہاں بائیوٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI)، اور ڈیٹا الگوردمز انسانی ذہن اور جسم کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسانی فیصلے زیادہ تر ڈیٹا پر مبنی ہوں گے اور الگوردمز ہماری زندگی کے اہم پہلوؤں کا تعین کریں گے۔اس ڈیٹا کا کنٹرول اہم ہوگا جس کے پاس بھی ڈیٹا ہوگا وہ طاقتور ہوگا۔ اس طرح سے انفرادی آزادی ممکنہ طور پر کم ہو سکتی ہے کیونکہ انسانی رویے اور ترجیحات دونوں کو الگوردمز کے ذریعے اور کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہراری نے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے جیسے کہ ڈیٹا ازم کا غلبہ انسانی سماجی قدروں کو تباہ کر سکتا ہے۔ ہراری "ڈیٹا ازم” (Dataism) کا ذکر کرتے ہیں جو ایک ایسا نظریہ ہے کہ ڈیٹا اور انفارمیشن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ اگر یہ نظریہ غالب ہوا تو انسانی جذبات اور خیالات کی جگہ ڈیٹا کے تجزیے لے سکتے ہیں۔اسی طرح عدم مساوات بھی آنے والے دور کا بڑا چیلنج ثابت ہو گی۔ ٹیکنالوجی کا یہ ارتقا ممکنہ طور پر ایک "نیکسس ایلیٹ” پیدا کرے گا، یعنی وہ لوگ جو ڈیٹا اور ٹیکنالوجی پر قابو رکھتے ہیں اور باقی انسانیت پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اس تفریق کے بعد آزادی کا خاتمہ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ہوتا جائے گا۔ نیکسس کا ایک منفی پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی خود مختاری کھو دے اور مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے لگے گا۔ ہراری کے خیالات کی روشنی میں نیکسس کے ممکنہ فوائد بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی مدد سے بیماریوں کا خاتمہ ہو سکے گا۔ بایوٹیکنالوجی کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہوگا۔ زندگی کا معیار کم از کم مادی وسائل کی فراہمی کی وجہ سے بہتر ہوگا۔ AI اور ڈیٹا الگوردمز زندگی کے ہر پہلو میں مدد کریں گے، جیسے صحت، تعلیم، اور معیشت کی ترقی۔ انسانی دماغ اور جسم کو تکنیکی طور پر بڑھا کر انسانوں کو "سپر ہیومن” بنانا بھی ممکن ہو سکے گا۔ ہراری کی کتاب میں فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات بھی اٹھاتے گئے ہیں کہ آیا نیکسس کے ذریعے ہم واقعی خوش اور مطمئن ہوں گے؟ڈاکٹر ساجد علی یوسف زئی نے اس حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا انسان اپنے اختیار سے ان الگوردمز کو قبول کرے گا؟ یا یہ ایک ناگزیر مستقبل ہوگا؟معروف دانشور اور پاکستان میں ہراری کے نقاد علی اویس بانٹھ کے مطابق ہراری نے آنے والے دور میں سیلیکان کرٹن کا تصور پیش کیا ہے جس کے مطابق آنے والے دور میں دنیا کی تقسیم A I کے Information سسٹم پر مشتمل ہو گی۔ اس کے لیے انھوں نے AI Centralized flow of information system اور AI Distributive flow of information کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ان کے مطابق سنٹر لائزڈ سسٹم چائنا کا ہے اور ڈی سینٹرلائزد سسٹم امریکہ میں موجود ہے۔

نیکسس انسانوں کو ان کی موجودہ حالت سے آگے لے جا کر انھیں "ڈیٹا پر مبنی مخلوق” میں تبدیل کر سکتا ہے۔ان سب باتوں کو نظر میں رکھ کر یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا دور نہایت مختلف اور حیرت انگیز ہو گا۔