کیا یہ چلن بدلے گا؟

ماضی سے جڑی اک یاد ہے، زمانہ حال سے اس کا رشتہ جڑا نظر آتا ہے۔ میں اپنے بڑے بھائی سے ملنے بنارس روڈ لاہور کینٹ کے ایک فوجی میس اس کے کمرے تک پہنچا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر ان کا بیٹ مین دوڑتا ہوا آیا، سلام کے بعد کہنے لگا سر صاحب ابھی آئوٹ ہوا ہے، میں نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا میجر صاحب کوئی کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا سر میرا مطلب ہے وہ ابھی آئوٹ گئے ہیں، بات تو سمجھ آ چکی تھی۔ میں نے شکر ادا کیا، اس نے یہ نہیں کہہ دیا میجر صاحب ابھی ناک آئوٹ ہوئے ہیں۔ چند لمحے توقف کے بعد بولا سر ہو سکتا ہے وہ ابھی پارکنگ میں ہوں۔ ہم دونوں اس جانب بڑھے۔ بھائی نے گاڑی ریورس کرتے ہوئے مجھے دیکھ لیا اور رک گئے۔ اس زمانے میں گاڑی صرف سی او کے پاس ہوا کرتی تھی۔ نئی گاڑی کا مطلب تھا غیر ملکی ڈیپوٹیشن گزار کر آئے ہیں یا متمول گھرانے میں بیاہے ہیں۔ لفٹینوں، کپتانوں کے پاس سکوٹر دیکھنے میں آتا جس کا مطلب تھا نیا ہے تو سلامی میں آیا ہے یا سلامی کے پیسے جمع کرکے خریدا ہے۔ پرانے کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ کمیٹیاں ڈالی گئی ہیں۔ سستا زمانہ تھا، سب لوگ قناعت پسند اور رزق حلال میں خوش تھے۔

ہماری گاڑی ایک عمارت کے باہر جا کر رکی، اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک کمرے کے دروازے پر چق پڑی تھی۔ چق اٹھائی تو دفتری میز کے پار ڈی ایس پی کی وردی میں ملبوس ایک صاحب بیٹھے تھے آس پاس ماتحتوں کا مجمع تھا۔ یہ شیخ عبدالاحد ڈی ایس پی ٹریفک تھے۔ نہایت تپاک سے ملے۔ آمد کا مقصد پوچھا اور جتنی دیر میں چائے آئی اور ختم ہوئی اتنی دیر میں گاڑی چلانے کا لائسنس بن چکا تھا۔ میں نے نوٹ کیا شیخ صاحب پولیس افسران کی شہرت کے برعکس نہایت ملنسار اور دھیمے مزاج کی شخصیت ہیں۔ بعد ازاں ان سے ان کے گھر پر بھی ملاقاتیں جاری رہیں جو تھانہ سول لائنز میں پلازہ سینما کے مقابل تھا۔ ملک کے مختلف شہروں سے لاہور آنے والے کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد لاہور کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور ’’گل ای کوئی نئیں‘‘ مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک دوست پر کوئی افتاد آن پڑی۔ شیخ عبدالاحد صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کمال محنت سے بتایا کہ اب وہ اچھرہ سرکل کے انچارج ہیں وہیں آ جائیں، وہاں پہنچے تو دیکھا ہر چند منٹ کے بعد فون کی گھنٹی بجتی ہے، کبھی وائرلیس پر کوئی پیغام آ رہا ہے، کبھی کوئی تھانیدار حاضری دے رہا ہے، کبھی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جاتے ہیں، پرچی پر کچھ لکھتے ہیں، کبھی کوئی اور افسر انہیں پرچی پیش کر رہا ہے۔ اندازہ ہوا کوئی غیرمعمولی بات ہے۔ تاثر یہ تھا جیسے آسمان اوپر آن گرا ہے یا گرنے کو ہے۔ ہم چائے، بسکٹ سے استفادہ کر چکے تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ہمارے علاقے میں ایک بڑا سیاسی آدمی قتل ہو گیا ہے۔ سب مصروفیت اسی سلسلے کی تھی۔ اسی مصروفیت میں وہ احمد رضا قصوری کے والد محترم کے قتل کی ایف آئی آر درج کرکے اسے سربمہر کر چکے۔ اس میں وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ یہی ایف آئی آر انہیں تختہ دار تک لے جانے کا باعث بنی۔ بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل کو ان کے وکلاء نے سیاسی مقدمے کی طرح لیا۔ مقدمہ تھا بھی سیاسی لیکن قانونی ماہرین کا آج تک کہنا ہے کہ اگر اسے مقدمہ قتل کی طرح لڑا جاتا تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ ایک دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ مقدمہ جس طرح بھی لڑا جاتا، مقدمہ شروع ہونے سے قبل بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا فیصلہ کہیں کیا جا چکا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو مقدمہ قتل میں پھانسی دینے کے بعد سے سیاسی تاریخ میں اک عجب چلن آیا ہے کسی بھی حکومت کے زمانے میں کسی بھی احتجاج کے دوران اگر کوئی جان ضائع ہو جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا کسی اہم حکومتی شخصیت کو اس میں نامزد کر دیا جائے، یہ کوششیں ماڈل ٹائون کے اس مشہور واقعے میں بھی نظر آئیں جس میں چودہ معصوم افراد کو قتل کر دیا گیا، گولیاں پولیس اہلکاروں نے چلائیں۔ منہاج القرآن سے وابستہ لوگ پرامن احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت کی حکومت کو یہ منظور نہ تھا۔ جناب نوازشریف وزیراعظم اور جناب شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ مقتولین کے ورثاء کا اصرار تھا کہ ان کے ملزم وہی ہیں۔ پی ٹی آئی راہنما ایک ریلی لے کر نکلے، ان کے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش میں ایک لیڈی رپورٹر ٹائروں تلے آ کر کچلی گئی اور جاں بحق ہو گئی۔ ایک ٹیم مرحومہ کے گھر ڈیرے ڈالے رہی کہ مقدمے میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو نامزد کیا جائے۔ جناب نوازشریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ جلوس لیکر لاہور آ رہے تھے، ان کے سکواڈ کی ایک گاڑی تلے آ کر ایک نوجوان جاں بحق ہو گیا، ان کی مخالف جماعت انتقال کر جانے والے شخص کے گھر پہنچ گئی اور اس کے اہل خانہ کو اس بات پر رضامند کرتی رہی کہ مقدمہ نوازشریف صاحب کے خلاف درج کرایا جائے۔ انقلاب ریلی جب پہلی مرتبہ خان اور جناب طاہر القادری صاحب کی قیادت میں اسلام آباد ڈی چوک سے نکلی تو اس پر پولیس نے فائرنگ کی۔ مظاہرین کو منتشر کرنا چاہا۔ اس فائرنگ کی زد میں آ کر کچھ ہلاکتیں ہوئیں، ان ہلاکتوں کا ذمہ دار جناب نواز اور شہبازشریف کو سمجھتے ہوئے انہیں نامزد ملزم بنانے کی کوششیں نظر آئیں۔ نومبر 2024ء میں اسلام آباد میں وہی منظر ایک مرتبہ پھر نظر آیا جہاں 12افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ حکومتی ترجمان کہتے رہے گولی تو چلائی ہی نہیں گئی جبکہ بعض عینی شاہدین کے مطابق روشنیاں گل کرکے فائرنگ کی گئی۔ اس کا ذمہ دار وزیراعظم شہبازشریف، ان کے وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس کو ٹھہراتے ہوئے انہیں اس میں نامزد کرنے کی درخواست دی جا چکی ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد میں رینجرز اہلکاروں کی موت کا ذمہ دار پی ٹی آئی قائدین کو قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ قتل درج بھی ہو چکا ہے۔ اس واقعے کی فوٹیج میں رینجرز اہلکاروں سے ٹکرانے والی گاڑی اسے چلانے والا اور اس کے مالک کے بارے میں شواہد نظر آ رہے ہیں لیکن ایف آئی آر میں ملزم کوئی اور ہے جس سے حادثہ سرزد ہوا۔ وہ نوجوان اپنی غلطی تسلیم بھی کر چکا لیکن حکومتی مرضی و منشاء کے مطابق ان کے ملزم کوئی اور ہیں۔ ایسے مقدمات جب عدالت کے روبرو ہوں گے تو خس و خاشاک کی طرح اڑ جائیں گے پھر ان کوششوں سے کیا حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم کس بے دردی سے وقت برباد کرتے ہیں، قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں جو پہلے ہی اندھا بتایا جاتا ہے۔ کیا یہ چلن بدلے گا؟ کب آئے گی شرافت کی سیاست۔