ذوالفقار احمد چیمہ… کہاں تلاش کروں ایسی زندگی

علم اس وقت روشن ہوگا جب کتاب کی روشنی اندھیروں کو ختم کریگی۔ زمانہ جدید کی بہت سی فضولیات نے ہماری کئی نسلوں کو کتاب سے بہت دور کر دیا ہے۔ میرے نزدیک کتاب ہر انسان کی زندگی میں بڑا کردار ادا کرتے ہوئے اس کے کئی بند دریچوں کو کھولتی ہے بہرحال اپنا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے کتاب شائع کرنے کے حوالے اور کتاب کو پڑھانے والے اس دور میں علمی جہاد کر رہے ہیں اور جہاد اس وقت کیا جاتا ہے جب معاشرہ جموں کا شکار ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے زندگی کے اصل مقاصد بھول کر تباہی کے راستے کی طرف نکل پڑتا ہے۔ یہی کچھ آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ ایک مثل ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ ہم جو آج لاعلمی کے جو بیج بو رہے ہیں، ہماری نسلیں وہی کاٹ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کتاب دوست اور علم فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار عاصم نے مجھے ذوالفقار احمد چیمہ کی تین کتب بھجوائیں۔ تینوں کتابیں جہاں ان کی تمام زندگی کو ایک کوزے میں بند کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے زندگی بھر کی اپنی کمائی عزت کو جس طرح کتاب میں محفوظ کرکے ہمارے جیسے جاہل لوگوں تک پہنچایا اور یہ پیغام بھی دیا کہ یہی تو زندگی ہے جو دوسروں کے سامنے آپ کے ماضی اور حال کو بیان کرتی ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ زندگی ایک سارنگ نہیں رکھتی، یہ بدلتے بدلتے کبھی اتنی مہربان ہو جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ کائنات میں کوئی اور غم نہیں اور کبھی یوں رخ بدلتی ہے جیسے ایک ہلکی سی مسکراہٹ بھی کبھی اس کا حصہ نہ رہی ہو… ذوالفقار احمد چیمہ کی زندگی کو دیکھتا ہوں تو بعض اوقات یقین نہیں آتا کہ سخت گیر اداروں میں ایسے بھی ایماندار لوگ ہوتے ہیں اور اس سے بڑا دکھ کہ ہم ان سے کچھ سیکھ نہیں پاتے۔

گزشتہ کئی گھنٹوں سے ذوالفقار احمد چیمہ کی تین کتابوں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ بطور صحافی ایک دوبار ان سے شرف ملاقات سرکاری کھانوں پر ہوا۔ ایسی ملاقاتوں میں ہاتھ ملانے سے چہرہ ملائی تک ہی وقت ملتا ہے مگر میرا ایمان ہے کہ ایسی شخصیات کی زندگی جب کتابوں کے حوالے کی جاتی ہے تو پھر اس زندگی سے ایک طرح کی دوستی بھی ہو جاتی ہے۔ میں ان کتابوں پر تبصرہ نہیں کروں گا گو اس مقصد کے لئے علم فاؤنڈیشن والوں نے تین کتابیں میرے حوالے کی ہیں۔ آج بات ہوگی ذوالفقار احمد چیمہ کے بارے کہ وہ صرف اپنی نوکری کے زمانے کی عہد ساز شخصیت نہیں بلکہ وہ آج کی نسلوں کا رول ماڈل ہیں۔ کہتے ہیں کہ بڑے زمانوں کے بڑے لوگوں کی داستانیں جہاں ان کے بڑے ہونے کا ثبوت ہوتی ہیں۔ وہاں ان کے بنائے معاشروں میں ان کی حکمرانی کے قصے کہانیاں تو یہی بناتے ہیں کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خداتعالیٰ ہر انسان کو دنیا میں کسی نہ کسی کام کے لئے بھیجتا ہے۔ کسی سے بہت چھوٹا تو کسی سے بہت بڑا کام لے جاتا ہے۔ کسی کو حکمرانی تو کسی کو فقیر بنا دیتا ہے، کسی کو نواز دیتا ہے تو کسی کو تنگ دستی میں رکھتا ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ وہ عام آدمیوں سے بڑے بڑے کام لے جاتا ہے اور حکمرانی انہی لوگوں کو بخشتا ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں آپ کے اور میرے ذہن میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ یہ بڑی لیڈرشپ کیا ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو بحیثیت لیڈر بڑے فیصلے کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ کیا وہ لوگ جن کے اندر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی متحرک رکھنا ہوتا ہے۔ دوسرا سب کو ساتھ لے کر چلنا اور اپنے خیالات اور عزائم دوسروں کے اندر اتارنا اور پھر انہی لوگوں کو متاثر کرنا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں تاکہ وہ ان کی زندگیوں کو اور بہتر کر جائے یا پھر دوسروں کے مقابلے میں عزت و وقار کے ساتھ سربلند ہو کر چلنے کا عزم دے گا ان کی مشکلات آسان کرتے ہوئے ان کو اپنے ہی لوگوں میں کھڑا کرے گا ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ان کو اپنا بنائے گا یہی ایک اچھے قائد کی خصوصیت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی اہمیت کا حامل ہونا یا خود سے لیڈرشپ نہیں اور نہ کمال کو پہنچنا یہ بذات خود لیڈرشپ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اچھا لیڈر کون ہوتا ہے وہ جو اپنے علم، تجربات اور اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے تاریخ اور قوم کا نقشہ یا پھر لوگوں کی قسمت بدل دے جیسے ذوالفقار احمد چیمہ۔ یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ذہین اور باکمال شخصیات کے ویڑن اور ان کی محنت، لگن اور صاف نیت کے ساتھ ان کے بزرگوں کی دعائیں شامل ہونے سے اپنی بڑی منزل پا جاتے ہیں۔ اچھا استاد ایک اچھا دانشور بھی ہوتا ہے اور اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو اپنی تھیوری کی بجائے وقت کے نتائج پر یقین رکھتا ہو۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی زندگی کے اوراق تو یہی بتاتے ہیں کہ…
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
تلاش زندگی میں بڑے لوگوں کی زندگیاں، کامیابیاں اور ان کے کئے بڑے کام ہی نظر آتے ہیں۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی زندگی بھی ایک تلاش ہے اور اس طویل تلاش کے سنگ میل تو ہیں مگر ان کی منزل ابھی دور ہے۔ ان کے اندر بحیثیت قائد، اچھا انسان، اچھا دوست یعنی ان کی زندگی کے کئی پھیلاؤ جو بہتے دریا کی طرح بہہ رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں کئی ایسے موڑ آئے ہوں گے، ایسے کئی راستے اپنائے یا بدلے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ پانی جب پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں کی طرف دوڑتا ہے تو اس کی رفتار میں چیتے جیسی رفتار ہوتی ہے اور وہ لہروں کی طرح بل کھاتا، اچھلتا، راستے میں ہر آنے والی چٹانوں سے ٹکراتا آگے نکل جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو شیر یا چیتے کی زندگی کا انتخاب صرف ذوالفقار احمد چیمہ جیسے ہی انسان کر سکتے ہیں، جن کے اندر قائدانہ صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز دریا کی طرح کیا۔ پھر وہ موج کی طرح بل کھا کر اٹھا، سنگلاخ پہاڑوں کا مقابلہ کیا، زندگی کا راستہ بنایا اور پھر شیر کی زندگی جینا شروع کر دی… میرے نزدیک زندگی ایک فراق و وصال سے بہت بلند حاصل محرومی سے بے نیاز، اپنے اندر کی تبدیلیوں سے بے خبر کہیں بہت قدیم تو کہیں بہت جدیدیت کے ماحول میں اترتی نظر آتی ہے کہ یہ زندگی ہے اس کو جدھر لے جانا چاہیں جا سکتی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس زندگی سے ایک لیڈر بنتے ہوئے وہ زندگی ہی میں بڑے کام اپنی قائدانہ صلاحیتیں بھی منوا جاتا ہے۔ اسی لئے کسی درویش نے یہ کہا تھا کہ شہرت کسی کی میراث نہیں ہوتی، کسی کو جلد تو کوئی مقدروں کا متلاشی نظر آتا ہے۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی زندگی کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ان کے وہاں صرف محنت، لگن اور جذبوں کی اقدار زیادہ نظر آتی ہیں۔ آج اگر میں ان کی زندگی کی بہترین اننگز کے کھلاڑی کی خوبیوں کا ذکر کروں تو وہاں ان کے جارحانہ موڈ اور آنکھ میں زمانے کے تجربات کا پانی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے ان تھک انسان ہی زندگی کو جلد پا لیتے ہیں۔ ان کی زندگی کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کبھی بھی یکسانیت کا شکار نہیں ہوئے اور جب محسوس کیا راستہ بدل لیا…!یہی ایک اچھے لیڈرشپ کی صلاحیت اور جذبے ہوتے ہیں جو وہ دوسروں کے اندر اتارنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسے کل بھی… آج بھی ذوالفقار علی چیمہ کی زندگی کی کتاب میرے سامنے ہے۔