بھینس کے آگے بین بجانا

پنجاب کے ٹاپ لیول بیوروکریٹس کے ہمراہ تین ستمبر 2023 کوچیف آف آرمی سٹاف سیدعاصم منیر اور محسن نقوی صاحب سے ملاقات بلا شبہ کسی اعزاز سے کم نہیںتھی۔ وزیر مشیروں اور مجھ سمیت تقریباً 35 کے قریب بزنس مین بھی موجود تھے، تقریباً چار گھنٹے کی میٹنگ میں سب کو بولنے کا موقع دیا گیا، معززین نے ایک ایک بزنس مین کو انتہائی غور سے سنا۔

تقریب اورپر پوزل کے حوالے سے میرا کہنا تھا کہ یوں تو پاکستان پورا ہی خوبصورت اور قدرتی دولت سے مالا مال ہے لیکن بالخصوص کراچی سے لے کر گوادر تک ایک ہزار تریسٹھ کلو میٹر کی ساحلی پٹی ہے یہاں تو اللہ نے کچھ زیادہ ہی نوازا ہوا ہے۔ اگر اس ساحلی پٹی کو 4 کلو میٹر کے حساب سے سو ٹاپ ٹیکس پیئر بزنس مینوں کو دیدیا جائے تو یہ پوری پٹی ڈویلپ ہو جائے گی، لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر ہو جائیں گے۔ یہاں ہائوسنگ سکیمز، ٹورازم اور ہوٹلنگ کے ذریعے نہ صرف ملک کا قرض اتار دیں گے بلکہ قرضہ دینے والوں میں بھی شامل ہو جائیں گے، جب میں بول رہا تھا تو ہال میں مکمل سناٹا تھا، میری پوری بات کو بہت غور سے سنا گیا اور سراہا گیا۔ آرمی چیف کی جانب سے بھی سولات پوچھے گئے، جن کا تفصیل سے جواب بھی دیا۔ خیال تھا کہ اس حوالے سے فوری کام شروع ہو جائے گا لیکن اس بات کوتقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، بس راوی چین ہی لکھ رہا ہے ۔
عشق و محبت کیا ہوتے ہیں کیا سمجھاؤں واعظ کو
بھینس کے آگے بین بجانا میرے بس کی بات نہیں
گوادرکی خوبصورتی بارے ذاتی تجربہ کے ساتھ ساتھ ملکہ وکٹوریہ کے سفر کا احوال بتاتا چلوں کہ 1869کا واقعہ ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کا ایک کیپٹن ہوا کرتا تھا جس کا نام میتھیو تھا اس نے اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت ایک نام پیدا کیا ہوا تھا، مسٹر میتھیو وہ شخص تھا جو ہر وقت سیروسیاحت میں رہتا تھا اور اس کا کام تھا کہ وہ ہر علاقہ، فوج کی پوزیشنز کے بارے رپورٹنگ کرتا تھا کہ کہاں پر کون سی فوجیں کس طرح کام کر رہی ہیں۔ اسی مسٹر میتھیو کی فیئر ویل پارٹی چل رہی تھی ملکہ وکٹوریہ اس محفل میں خود چل کر اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مسٹر میتھیو تم نے دنیا گھوم رکھی ہے، آخر ایسی کون سی خوبصورت اور سب سے اچھی جگہ ہے جو تم رہنے کے لئے پسند کرو ؟ مسٹر میتھیو نے سوال سن کر برجستہ جواب دیا میڈم برصغیر میں مکران کی ساحلی پٹی ایسی ہی خوبصورت جگہ ہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے اسی وقت ارادہ ظاہر کیا کہ میں ضرور دیکھنے جائوں گی، تاریخ بتاتی ہے کہ1876 میں ملکہ وکٹوریہ اس ساحلی پٹی پر ایک ہٹ میں آئی اور وہاں سے غروب آفتاب کا نظارہ کیا۔ میں خود بھی اس جگہ سے ہو کر آیا ہوں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان خود اس غروب آفتاب کے منظر میں موجود ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ ہر موڑ پر راہزن اور جیب تراش دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ گھومتی ہوئی کرسیوں پر براجمان ہیں ٗ کچھ نے شیروانیاں‘ واسکٹیں اور عمامے زیب تن کئے ہوئے ہیں ٗ سب میں ایک قدر مشترک ہے۔ وصولی‘ وصولی اور وصولی!! نقد ٗ جنس یا فصل کی صورت میں یا کسی بھی شکل میں!
بس جیسا بھی ہے‘ آ جائے‘ آتا رہے اور آتا ہی رہے!
ارباب اختیار ملک و قوم کی ترقی کے حامل بہت سے پراجیکٹس کو بھولے بیٹھے ہیں ہمارے سیاستدان، ڈیمو کریسی، ایلیکٹ ہو کر آنے والے افراد سب کا ایک ہی ویژن ہے کہ وسیع تر قومی مفاد کے نام پرصرف اپنے خاندانوں کے مسائل حل کرو ، صبح سے لے کر شام تک پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ اکٹھا کرنا ہے اس کے علاوہ انہیں کوئی دوسرا خیال ہی نہیں آتا اس سسٹم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں لیکن انکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے !!!

نہ جانے آج رہ رہ کر کہاوتیں کیوں یاد آ رہی ہیں پنجابی کہاوت ہے چوری دے کپڑے‘ تے ڈانگاں دے گز‘‘ یعنی کپڑے چوری کے ہوں‘ تو گز بھی بانس برابر ہو جاتے ہیں کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گاکہ ایک ڈی پی او صاحب بارہ کے قریب آئی فون بیچنے حفیظ سنٹر تشریف لائے ، شک گزرنے پردکاندار نے گلبرگ کے ایس ایچ او کو اطلاع دے دی ایس ایچ او صاحب نے بھی بھانپ لیا کہ اچھا موٹاشکار آ چکا ہے سو بھاگم بھاگ پہنچے حالانکہ کوئی اور شکایت آئی ہوتی تو شاید تاخیر کا شکار ہو جاتے ۔آتے ہی اپنے مخصوص انداز میں تھوڑی بد تمیزی بھی کی کہ تمہارے پاس بارہ آئی فون آئے کہاں سے ؟ چور نما مبینہ ڈی پی او نے صرف ایک کال کی اجازت ملنے پر ایس پی کو کال کی ٗجوابا ایس پی نے اس ایس ایچ او کو کال کی اسکے بعد ایس ایچ او نے ڈی پی او صاحب کو سیلیوٹ کیا اور اسی دکاندار کے مطابق سر ، سر کہہ کر ڈی پی او صاحب کے تمام آئی فونز کا سودا کروایا اور دونوں خوش گپیوں میں مگن وہاں سے چلے گئے ۔
واقعہ بارے ڈی ایس پی دوست سے استفسار کیا کہ آخر بارہ آئی فون کیسے اکٹھے کیے ہوں گے ؟ وہ کہنے لگا کہ ہوتا یوں ہے جب کوئی بندہ کسی کام سے ڈی پی او یا ٹاپ لیول کے بندے کو ملتا ہے توگفتگو میںپوچھا جاتا ہے کہ اچھا آئی فون کہاں سے ملے گا میرا بیٹا آئی فون کی ضد کر رہا ہے ۔ملاقاتی سمجھ جاتا ہے کہ صاحب خود بتا رہے ہیں کہ انہیں کیا چاہیے وہ آئی فون لا کر دے دیتا ہے اور اسی طرح ڈی پی او سمیت لوگوں کے لئے پانچ پانچ لاکھ کے آئی فون اکٹھے کرنا نارمل بات ہے ۔

آخر میں ان بزنس مین دوستوں کا شکریہ جنہوں نے ’’ سو بزنس مینوں کی مشاورتی کونسل ‘‘کی پذیرائی پر میرے اعزاز میںڈنر رکھا وہاں کھلم کھلا باتوں میںپوچھا گیا کہ آپ اتنی محنت سے آرٹیکل لکھتے ہیں آپکو اس کا کیا صلہ ملتا ہے ؟میں نے جواب دیا کہ فائدہ کیا ہونا ہے میں تو اپنا غصہ ٹھنڈا کرتا ہوں اور پاکستان کی ترقی کے لئے محض اپنا حصہ ڈال رہا ہوں آپ بھی اپنا حصہ ڈالیں اس بات پر ایک زوردار قہقہہ لگا اور کہا گیا کہ کھانا کھائیں جی ، کوئی فائدہ نہیں ، بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے !!!