جس دن ہمیں احساس ہو گیا کہ ہمارئے جینوئن ایشو زکیا ہیں اور اِس کے لیے بحیثیت مجموعی ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے وہ دن اِس ملک میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا،پھر ہمارے قلم کی شعلہ بیانی بھی بدل جائے گی اور ٹاک شوز میں پروفیشلز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ہم سیاسی و مذہبی لیڈروں کی اگلی ہوئی باتوں بیانوںکی جگالی کرتے ہوئے اخبارات کے صفحے کالے کرتے اور کالم لکھتے رہتے ہیں۔ ٹاک شوز میں ٹھٹھہ اڑنے کی مہارت کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ جنہیں خود سماجیات اور اخلاقی کلاسوں میں داخلہ لینا چاہیے وہ قوم کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک چلن یہ بھی عام ہو چکا کہ کوئی بھی عالمی دن بڑے جوش و خروش سے پنج ستارہ ہوٹلوں میں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہوئے مناتے ہیں اور اِس دن کی اہمیت اورا فادیت کی تبلیغ کرنے کے بعد لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔یہ ہمارا قومی کردار ہے۔ سماجی و انسانی،سائنسی و تعلیمی اور صحت عامہ کی ترقی کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں، یہ بھی ہمیں دنیا بتاتی ہے جسے ہم فورا یہود و ہنود کی سازش قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ہم پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنانے پر تو کوئی توجہ نہیں دیتے جبکہ دریاں کے خشک ہوجانے اور پانی کی کمی کا الزام بھارت پر لگانے میں زرا دیر نہیں کرتے۔
تحقیق اور جستجو میں سرگرداں ادارے بتاتے ہیں کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کو صاف پانی کی محرومی کا سامنا ہے۔ پانی کے بڑھتے ہوئے بحران کا شکار اِس ملک کے پاس ابھی تک پانی کے حوالے سے کوئی قومی پالیسی نہیں۔ پانی کے امور پر تحقیق کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چند دہائیاں پہلے یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ پاکستان کو پانی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہاں پانی کی ایک لیٹر بوتل کی قیمت ایک لیٹر پٹرول کی قیمت سے بھی بڑھ جائے گی۔پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار پانی پر ہے اور بدقسمتی سے پانی کا مسئلہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔
پانی اب صرف چولستان، تھر اور پہاڑی علاقوں میں ہی نہیں رہا بلکہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی لوگوں کو پینے کے صاف پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ خوشاب کی یونین کونسل گولے والا کے گائوں مہوڑیاں والا میں پاکستان کے کئی دوسرے علاقوں کی طرح آج بھی جانور اور انسان ایک ہی ذخیرے سے پانی پیتے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے سارے ارکان قومی اسمبلی مسلم لیگ نون کے جیتے ہوئے ہیں۔ صاف پانی کی کمیابی یا اِس تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مضر صحت پانی کا استعمال بڑے پیمانے پر انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ واٹر ایڈ کے مطابق ہر سال پاکستان میں قریباً 53ہزار بچے اسہال اور گندے پانی سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ تیس لاکھ کے لگ بھگ افراد پانی کے باعث پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔پانی اور حفظان صحت سے متعلق کام کرنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں قریبا ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی نہیں اور اِس ضمن میں انہیں عدم مساوات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔عالمی یوم آب کے موقع پر جاری کردہ اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں اور لوگوں کے پاس غیر محفوظ ذرائع سے غیر معیاری پانی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان میں کوئی جامع واٹر پالیسی ہی نہیں اور نہ ہی لوگوں کو اِس کا ادراک ہے کہ یہ معاملہ ہوتا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پانی کے مسائل بھی سیاست کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں۔ پاکستان میں پانی کے محتاط استعمال کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ذخیروں پر فوری کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اِدھر حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق آبی ماہرین نے پارلیمنٹ میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اِس رپورٹ میں پاکستان کے 61 فیصد پینے کے پانی کا آلودہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کی جانب سے مرتب کی گئی ہے، جس میں ملک بھر سے چار سو سے زیادہ پانی کے نمونوں کا لیبارٹری معائنہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ملتان میں 94 فیصد، شیخوپورہ میں 60 فیصد، سرگودھا میں 83 فیصد، حیدرآباد میں 80 فیصد، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 93 فیصد اور سندھ کے کچھ اضلاع میں سو فیصد پانی آلودہ پایا گیا۔
آبی وسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے صنعتی، زرعی اور میونسپل فضلے کو آبی ذرائع میں ڈال رہے ہیں اِس لیے پاکستان کا 61 فیصد نہیں بلکہ اِس سے زیادہ پانی آلودہ ہے، زراعت میں ہم کیڑے اور جڑی بوٹی مار ادویات، پوٹاشیم کا استعمال کرتے ہیں اور اِسے زیر زمین پانی میں جذب ہونے دیا جاتا ہے، جسے پینے کے لیے نکالتے ہیں۔ میونسپل اور صنعتی فضلہ واٹر کورسز میں پھینکا جا رہا ہے، اِس فضلے میں سے دو فیصد سے بھی کم پانی کو صحیح طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اسلام آباد کے ایک مشہور اپارٹمنٹ کا تمام فضلہ ایک نالے میں ڈالا جاتا ہے جو پانی کے ذرائع سے منسلک ہے جنہیں لوگ استعمال کرتے ہیں، میونسپل کا بہت سا فضلہ اور دیگر گندگی بھی راول جھیل میں ڈالی جاتی ہے اور راولپنڈی کو وہ پانی فراہم کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پرفضا مقام گلگت بلتستان سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونے سو فیصد آلودہ ثابت ہوئے۔ سیاح شمالی علاقوں میں پیمپرز سے لے کر شاپنگ بیگز تک سب کچھ آبی گزرگاہوں میں پھینک دیتے ہیں، مقامی لوگوں کے پاس صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہے، اِس لیے وہ میونسپل فضلہ واٹر کورسزاور فواروں میں پھینک دیتے ہیں۔
عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی اور پانی کو تیل کی آمیزش سے صاف رکھنے کی مہم بھی جاری ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ صنعتوں کو صنعتی فضلہ اور بلدیاتی اداروں کو میونسپل کچرے کو ٹریٹ کرنے کا پابند کرے اور زرعی آلودگی سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروائے تو اِسے حل کیا جا سکتا ہے لیکن اِس حوالے سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔آلودہ پانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض کے متعلق ڈاکٹر وں کہنا ہے کہ آلودہ پانی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، اِس میں مختلف دھاتوں کی آمیزش بھی ہو سکتی ہے، انسانوں اور جانوروں کا فضلہ بھی شامل ہو سکتا ہے، اِس سے معدے، آنتوں اور جگر کی بے شمار بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، سب سے زیادہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب جسم سے پانی کا اخراج ہونا شروع ہو جائے کیوں کہ اِس کے نتیجے میں انسان کی موت بھی ہو سکتی ہے، اِس کے علاوہ گندے پانی کے استعمال سے سرطان اور ہیپاٹائٹس جیسی جان لیوا اور مہلک بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ضروت اِس امر کی ہے کہ حکومت اِس اہم مسئلے پر سنجیدگی دکھاتے ہوئے شہریوں کو آلودہ پانی سے محفوظ رکھنے اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے، ہیلتھ کا شعبہ پہلے ہی ناکام دِکھتا ہے اِس پر بیماریوں کا مزید بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ ہیلتھ کی صورت حال کو بہتر کیا جائے۔