بحیثیت قوم مسیحا بننا شاید ہماری فطرت میں ہے اور اس شوق میں اکثر ہم حالات و واقعات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور خاص طور پر بات جب سیاست کی ہو تو اس میں اتنی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے کہ آپ اپنی پسند کے مطابق کہہ سکیں کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا کہ آدھا خالی ہے ۔ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصہ سے جو سیاسی خلفشار ہے اس کا تعلق زمینی حقائق سے کم اور میڈیا جس میں خاص طور پر سوشل میڈیا ہے اس سے زیادہ ہے ۔ اس صورت حال میںہر بندہ یہی کہتا ہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں کہ دنیا میں ہر مسئلہ کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہی ہیں ۔ بات بالکل درست ہے لیکن زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر کی جا رہی ہے اس لئے کہ مذاکرات اس وقت اور اس صورت کئے جاتے ہیں کہ جب فریقین کے درمیان دونوں اطراف میں مذاکرات کا ماحول بھی ہو ۔ حالت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے جیل سے سول نا فرمانی کی کال دے رکھی ہے اور خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کہتے ہیں کہ سول نا فرمانی کی کال موخر نہیں ہو گی ۔ ایک جانب سول نا فرمانی کی کال ہے کہ جو 15دسمبر سے شروع ہونی تھی جبکہ دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا حکومت کو دھمکی دیتے ہیں کہ اگلی بار ہم اسلحہ سے لیس ہو کر آئیں گے اور پھر دیکھتے ہیں کہ کون بھاگتا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کہ جن کے کہے ہر لفظ پر عمل ہوتا ہے ان کی جانب سے سول نا فرمانی کی تحریک کی کال اور ساتھ میں یہ کہنا کہ پارٹی کی قیادت کا رویہ تو ایسا ہے کہ جیسے سب ’’ گڈی گڈی ہے ‘‘ اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی وفاق کو دھمکیاں جبکہ دوسری جانب اس وقت تحریک انصاف کے جو چیئر مین ہیں بیرسٹر گوہر خان ان کا بیان ہے کہ ’’ بس بہت ہو گئی اب مذاکرات کی طرف آنا چاہئے جبکہ عمر ایوب خان کہتے ہیں کہ انسان ہوں یا فرشتے ہم سب سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں تو ان متضاد رویوں کے ساتھ تحریک انصاف کی جو اصل پالیسی ہے اس کی نمائندگی کون کر رہا ہے پہلے تو یہ طے کرنا پڑے گا لیکن اگر ایک جانب دھمکیاں دی جا رہی ہوں اور ساتھ میں مذاکرات کا راگ بھی الاپا جا رہا ہو تو پھر ایسا کس طرح ممکن ہے ۔
یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے طالبان جب چاروں اطراف سے گھیرے میں آجاتے تھے تو میڈیا میں ان کے حامی مذاکرات کا راگ الاپنا شروع کر دیتے تھے اور بالکل الفاظ بھی یہی ہوتے تھے جناب انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر مسئلہ کا حل مذاکرات ہی ہیں اور اگر ہم ہندوستان سے مذاکرات کر سکتے ہیں تو ان سے کیوں نہیں اور پھر مذاکرات شروع ہو جاتے اور وہ مذاکرات کی آڑ میں وقت حاصل کرتے اور اپنے آپ کو مزید منظم کرتے اور اس دوران خود کش حملوں کی شکل میں دہشت گردی بھی جاری رہتی اور جیسے ہی حالات سازگار ہوتے تو کون سے مذاکرات اور کون سے معاہدے ہر بات سے مکر جاتے ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال تحریک انصاف کے ساتھ ہے کہ فرض کر لیں کہ 24نومبر کو جس طرح اسلام آباد پر چڑھائی کر کے اسے فتح کرنے کے ارادے سے تحریک انصاف کی قیادت آئی تھی اگر یہ اس میں کامیاب ہو جاتے تو کیا پھر ان کا رویہ بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب خان جیسا ہوتا یا بانی پی ٹی آئی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا جیسا ہوتا ۔ اب ہر کوئی مذاکرات کا کہہ رہا ہے تو مذاکرات کیوں کئے جائیں اس لئے کہ اب ایک اور نرالی منطق سامنے آئی ہے کہ ہم مذاکرات تو غیر مشروط ہی کریں گے لیکن ہمارے مطالبات ضرور ہوں گے تو اب جو مطالبات ہیں ان میں سے پہلا مطالبہ تو یہی ہے کہ تحریک انصاف کا مینڈیٹ اسے واپس کیا جائے ۔ یہ مطالبہ ایسے ہی ہے کہ جیسے پرانے وقتوں میں رادھا نے مطالبہ کیا تھاکہ نو من تیل ہو گا تو رادھا
ناچے گی ۔ اب اس زمانے میں نو من تیل کہاں سے آتا لہٰذا نہ نو من تیل ہوا اور نہ رادھا ناچ سکی تو تمام پڑھنے والوں سے ایک ہی سوال ہے کہ مینڈیٹ واپس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میاں شہباز شریف ہی نہیںبلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں جماعتوں کی پوری قیادت اڈیالہ جیل جائے اور سب سے پہلے خان صاحب سے معافی مانگے اور پھر ان کے سامنے با ادب ہو کر بیٹھے اور اپنے تمام گناہوں بشمول فروری کے الیکشن میں دھاندلی کا اعتراف کرے اور پھر ساتھ میں خان صاحب کی مزید تسلی کے لئے بتائے کہ مرشد ہم نے بجلی پیٹرول اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھا دی ہیں کہ اب آپ کو اس حوالے سے مزید زحمت کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ مزاج یار میں آئے تو ان سب کی قیمتیں کم کر کے عوام میں اپنی گڈ ول بنا سکتے ہیں اور ہاں ڈالر بھی کافی اوپر جا چکا ہے اور سب سے بڑی بات کہ ہم نے دن رات محنت کر کے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بھی بچا لیا ہے اور اب معیشت بھی بہت بہتر حالت میں ہے ۔ ہمارے لائق مزید کوئی خدمت ہو تو بتائیں اور اب مہربانی فرمائیں اور ایوان صدر چل کر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا کر ہمیں فارغ کریں اور کل کو اگر آپ کا موڈ بنے تو ہم پہلے کی طرح جیل جانے کو بھی تیار ہیں تو ’’ یہ اپنا مینڈیٹ واپس لے لیں ‘‘ ۔
بانی پی ٹی آئی کا رویہ شروع دن سے غیر سیاسی رہا ہے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہونے کے باوجود سمجھ نہیں آتی کہ ان کی سوچ اور عمل میں سیاسی پختگی کب آئے گی ۔ یہ کون سی سیاست ہے کہ آپ اگر حکومت میں ہیں تو سب ٹھیک ہے لیکن اگر آپ حکومت میں نہیں ہیں تو پھر احتجاج اور وہ بھی اینٹی اسٹیٹ احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ملتا ۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ 2018کے الیکشن پر بھی ایسے ہی اعتراضات تھے لیکن اس وقت کی حزب اختلاف نے سسٹم میں گرڈ لاک نہیں لگایا تھا بلکہ سسٹم کو چلنے دیا تھا ور سسٹم میں رہتے ہوئے سیاست کی تھی اور آپ کو بھی سیاسی سوچ اپنانی پڑے گی ورنہ آپ کی ہر کال اسی طرح ناکام ہوتی رہے گی ۔