ارجنٹائن کے نئے صدر ہاوئیر مائیلی زندگی کے ہر پہلو میں آزادی سے محبت کرنے والے ماہر معاشیات اور مصنف ہیں۔ گذشہ برس دسمبر میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تاہم وہ ایک ایسے وقت میں صدر بنے جب ملک افراطِ زر اور قرضوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیروزگاری اور غربت عروج پر تھی۔ ان حالات میں ارجنٹائن کی صدارت سنبھالنا آسان کام نہ تھا۔ صدارت سنبھالتے ہی ہاوئیر کو معلوم ہوا کہ سالانہ افراطِ زر 3700 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی تھی جبکہ مالی خسارہ جی ڈی پی کا 15 فیصد تھا۔ سینٹرل بینک کے پاس فارن کرنسی زخائر منفی 12 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے قرضے 50 ارب ڈالر تھے۔ ہاوئیر مائیلی کو ہر محاذ پر چیلنجز کا سامنا تھا۔ وہ گذشہ حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں، حکومتی بدانتظامی اور کرپٹ بیوروکریسی کے خاتمے کے نعرے پر اقتدار میں آیا تھا۔ ان سب مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے مائیلی نے وہ معجزہ کر دکھایا جس کی توقع کسی کو نہ تھی۔ اس نے معیشت کے شعبے میں اپنے تجربے اور وسیع علم کی بنیاد پر فری مارکیٹ کے اصولوں کے تحت لاطینی امریکہ کی دوسری بڑی معیشت کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دور اقتدار کے پہلے چھ ماہ کے انتہائی قلیل عرصے میں ہاوئیر مائیلی ملک کو مالی سرپلس میں لے آئے۔ 16 سال میں پہلی بار ملک اس پوزیشن میں آیا تھا۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ وہ افراط زر کی شرح کو بھی تین سال کی کم ترین سطح پر لے آئے۔ تاہم، اہم نقطہ یہ ہے کہ ارجنٹائن کے صدر کے پاس کون سی ایسی گیدڑ سنگھی تھی کہ جس نے ایک مفلوج اکنامی، بیروزگاری، کرپشن اور قرضوں میں پھنسے ملک کو کامیابی کی طرف گامزن کر دیا۔ انقلابی سٹرکچرل اصلاحات اور بڑی تبدیلیاں کیسے روبہ عمل ہو سکیں۔ ہاوئیر مائیلی کے انٹرویو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے معیشت سمیت زندگی کے ہر پہلو سے متعلق معلومات کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔ کتاب سے محبت انسانی فکر کو کتنی جلا بخشتی ہے اس کا اندازہ ارجنٹائن کے موجودہ صدر کی کامیابیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہاوئیر کا سرمایہ بھی کتب بینی ہی نکلا۔ اس نے علم و حکمت کی بنیاد پر بہترین معاشی ٹیم کا انتخاب کیا اور ارجنٹائن کی ڈوبی معیشت کو صحیح سمت دینے میں کامیاب ہوئے۔ مائیلی خود کو anarcho capitalist کہتے ہیں، ان کے مطابق یہ ان کا آئیڈیل مائنڈ سیٹ اور وژن ہے۔ تاہم اکثر ان کو اس آئیڈیل وژن کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ anarcho capitalist سے ان کا مطلب یہ کہ وہ فری مارکیٹ فلاسفی اور ریگولیشنز پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ ریاستی مداخلت اور ریگولیشنز پر۔ جبکہ دوسری جانب جب وہ حقیقی زندگی کی بات کرتے ہیں اور پریکٹیکل اپروچ کی بات کرتے ہیں تو وہ خود کو minarchist کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ ہر چیز کا سائز یا حجم کم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جیسا کہ گورننس میں وہ حکومتی اداروں، وزارتوں اور بیوروکریسی کے سائز کو کم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ کے دوران وہ اب تک آدھی سے زائد وزارتوں اور غیر ضروری ڈیپارٹمنٹس کو ختم کر چکے ہیں۔ ہاوئیر نے صرف 15 فیصد نمائندگان اور 10 فیصد سینٹرز کی مدد سے ارجنٹائن کی تاریخ کی سب سے بڑی سٹرکچر ل اصلاحات کیں اور مزید 3200 سٹرکچرل اصلاحات جو زیرالتوا ہیں ان کو بھی جلد مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ جس دن وہ یہ تمام اصلاحات کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن ان کا ملک دنیا میں سب سے آزاد ملک ہو گا۔ ہاوئیر کے مطابق ڈی ریگولیشن منسٹری کے ذریعے روزانہ تقریباً پانچ ریگولیشنز کو ختم کیا جاتا ہے۔ ہاوئیر نے آئرلینڈ کی مثال دیتے ہوئے اپنی کی گئی اصلاحات اور آئندہ کی اصلاحات پر وزن ڈالتے ہوئے کہا کہ 40 سال قبل جب آئرلینڈ نے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا تو اس وقت وہ ایک انتہائی غریب ملک تھا، لیکن آج اس کی فی کس جی ڈی پی امریکا سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ ہاوئیر مائیلی نے ملک کے موجودہ حالات کا بخوبی علم حاصل کیا کہ کونسی ایسی اصلاحات ہیں جن کو وہ کم وقت میں کر سکتا ہے اور کون سی ایسی اصلاحات ہیں جن کے لیے وقت درکار ہے۔ تاہم جو اصلاحات وہ کم سے کم عرصے میں کر سکتے تھے اس پر فوراً عمل کیا اور اس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔ اب ان کی تمام تر توجہ بقیہ اصلاحات پر ہے تاہم مائیلی کو خدشہ ہے کہ ان کے نفاذ میں روڑے اٹکائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاہ مالیاتی خسارے کو کم کرنا بھی ہاوئیر کی ترجیح تھی جو کہ ملکی ترقی اور قرضوں سے نجات کے لیے ضروری تھا۔ ہاوئیر نے جہاں وزارتوں کی تعداد کم کی وہیں سول سرونٹس کو ملازمتوں سے برخاست بھی کیا۔ اب تک ہاوئیر 50 ہزار ملازمین کو برخاست کر چکا ہے جو اس کے مطابق غیر ضروری اور ملکی خزانے پر بوجھ تھے۔ اس کے علاہ صرف ضروری پوزیشن پر کام کرنے والے سول سرونٹ کے کنٹریکٹ کو ہی ری نیو کیا جاتا ہے۔
ارجنٹائن کے صدر نے خزانے کی بُری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام پبلک ورکس اور منصوبوں کو روک دیا۔ اس کا ماننا تھا کہ پبلک ورکس بھی کرپشن کا اہم ذریعہ ہیں۔ مائیلی نے صوبوں کو صوابدیدی فنڈز کی ٹرانسفر کو بھی روک دیا جس کی ایک وجہ کرپشن تھی اور دوسرا یہ کہ ان فنڈز کو چھپا کر رکھا جاتا تھا۔ جس مقصد کے لیے فنڈز فراہم کیے جاتے وہ اس جگہ استعمال ہونے کے بجائے خردبرد ہو جاتے۔ اس کا ایک اور اہم قدم اکنامک سبسڈی کو ختم کرنا تھا۔ عوامی اجرت میں وقتی کمی کی گئی جو حالات بہتر ہونے پر دوباہ بڑھ رہی ہے۔ ارجنٹائن کے صدر نے جو اصلاحات کیں اس کے سماجی اثرات کو کم کرنے کے لیے غریب لوگوں کے لیے سپورٹ سسٹم پر کام کیا۔ سب سے اہم قدم یہ اٹھایا کہ مڈل مین جس کو وہ Poverty managers کا نام دیتے ہیں اس کا خاتمہ کیا اس طرح 50 فیصد کی کٹوتی یا کرپشن مڈل مین کرتا تھا اب اس کو ختم کرنے سے مستحق لوگوں تک پوری رقم پہنچنے لگی، جس سے ان لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو گیا۔ اس کے علاہ ارجنٹائن کے صدر نے حکومتی اخراجات کو انتہائی درجے تک کم کیا اور میچور قرضوں کی ادائیگی بھی کی۔ سینٹرل بینک سے قرضوں کو خزانے میں شفٹ کیا جو ان کے مطابق اس کی صحیح جگہ ہے۔ مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ کو کلین کیا۔ انہوں نے 6 ماہ کے کم عرصے میں رضاکارانہ طور پر 45 ارب ڈالر کا نقصان ختم کیا۔ سینٹرل بینک کے ساتھ مالی ایڈجسٹمنٹ کی جو جی ڈی پی کا 19 فیصد بنتا ہے۔ اس کے فوائد عوام کو افراطِ زر میں کمی اور روزگار میں اضافے کی صورت میں ملنا شروع ہوئے۔ ان اہم اصلاحات سے مارکیٹ کے اندر دوبارہ سے معاشی سرگرمیوں نے جنم لیا۔ ہاوئیر نے اگرچہ ابتدا میں ٹیکسوں میں اضافہ کیا تاہم بعد ازاں بتدریج کمی کرتے گئے۔ رواں ماہ دسمبر میں ان کا ہدف ٹیکسوں کی شرح میں مکمل خاتمے کا ہے۔ ارجنٹائن کے صدر حال ہی میں امپورٹ ٹیکس کے مکمل خاتمے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس طرح وہ جی ڈی پی کا 13 فیصد لوگوں کو واپس دیں گے۔ ان کے مطابق حکومت کا سائز سب سے بڑا بوجھ ہے۔ جو کام حکومت نے اپنے سر لے رکھے تھے ان کو پرائیویٹ سیکٹر کو منتقل کر دیا گیا ہے جس سے مجموعی افراطِ زر میں بڑی کمی واقع ہوئی۔ 17 ہزار فیصد سالانہ کی افراطِ زر کی شرح اب 28 فیصد پر آ چکی ہے تاہم ہاوئیر افراط زر کو 2.4 فیصد پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
(جاری ہے)